کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 104
جس ہوٹل میں ہم مقیم ہیں، ا س کے سامنے چوراہے پر اس کا یہ برنجی مجسمہ ایک چبوترہ پر نصب ہے جیسا کہ اس تصویر میں دیکھ رہے ہیں۔ چونکہ یہ مجسّمہ اس ہوٹل کے سامنے ہے اس لیے یہ اس ہوٹل کا ”شعار“ یعنی مارکہ ہے۔ یہ تمہید وتعارف اس غرض سے ہے کہ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ ۱۶ مئی ۲۰ءکو پوپ نے جان آف آرک کی موت کے ۵۰۰ برس کے بعد اس کو ( ساحرہ کے بجائے ) ولیہ تسلیم کیا۔ ۱۶مئی کی صبح کو جب میں بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ؏ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے کہ دوکانوں پر آرائشی جھنڈیاں نصب ہیں۔ سامنے کے کیتھولک گرجے میں مذہبی مقدس پرچم لہرارہے ہیں، جان آف آرک کا برنجی اسٹیچو پھولوں سے لدا ہے اور زیارت کرنے والوں کا اس کے آگے ہجوم ہے۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ آج کی صبح سے اس کا شمار پوپ نے اولیائے الٰہی میں کیا ہے۔ اس ایک واقعہ سے یہ نتیجہ آسانی سے نکل سکتا ہے کہ یورپ بایں ہمہ حریت وروشن خیالی بلکہ الحاد و بے دینی مذہب کی زنجیروں میں اور کن زنجیروں میں، کس طرح جکڑا ہے۔ لیکن آپ فلسفی ہیں، اس لیے اس واقعہ کو ایک اور نظر سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یورپ کا مذہب کِس طرح سیاست د ست و گریبان ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ جان آف آرک فرانس کی وہ ہیرو اور شجاع خاتون ہے جو فرانس کو انگریزوں کے ہاتھوں سے نجات دلانے کے لیے نکلی تھی، مذہباً کیتھولک تھی۔ اس نے انگریزوں کو بارہا شکست دی، اور آخر انگریزوں کے ہاتھ گرفتار ہو کر ان پرساحرہ ہونے کا الزام قائم ہو ااور وہ بے دردی سے آگ میں جلادی گئی، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انگریزوں کے اس فعل شنیع کا فرانس کے قوم پرستوں پر کیااثر ہوا ہوگا۔ صدیوں سے انگلینڈ پروٹسٹنٹ ہے اور فرانس اور اٹلی کیتھولک ہیں۔ موجودہ جنگ کے بعدخونی م پر نظر صلح کا پردہ پڑ گیا تو یکایک نظر آیا کہ قربانیاں