کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 94
"اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں، تو میں تو قریب ہی ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے پس لوگوں کو چاہئے کہ میرے احکام قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں عجب نہیں کہ ہدایت پا جائیں۔ "
نیز:
﴿ وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُم ﴾ [1]
"اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔ "
لیکن
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات
انبیاء و اولیاء کے اختیارات
اسلام کے نزدیک توحید کا تصور یہ ہے کہ پوری مخلوق کی حاجت روائی مصائب و مشکلات کو حل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبر و منتظم ہے۔ ساری طاقتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ اکیلا ہی ساری نعمتوں کا مالک ہے۔ اس لیے اپنی حاجتوں کی طلب میں صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، صرف اسی کو پکارا جائے اور اسی کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار کیا جائے مگر بریلویت کا یہ عقیدہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے تدبیر امور کے اختیارات و تصرفات اپنے بعض بندوں کو عطا کر دیئے ہیں، جن کی وجہ سے وہ مخلوق کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ لوگ انہیں مصیبت کے وقت پکارتے، ان کے سامنے اپنا دامن پھیلاتے اور ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔
ان کے عقائد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اور کائنات کا سارا نظام اپنے مقرب بندوں کے سپرد کر دیا ہے، اور خود اللہ تعالیٰ کی ذات معاذاللہ معطل و معزول ہو کر رہ گئی ہے۔ اب کٹھن اور دشوار گزار حالات میں ان بندوں سے استغاثہ کیا جائے، انہی
[1] سورۃ غافر آیت 60