کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 92
سر نیاز خم کیا۔۔۔ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ شدائد و مشکلات میں ان سے استمداد و استعانت جائز ہے، قرآن کریم کی صریح، صاف اور واضح آیات سے متصادم ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا، حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے غرق ہونے والے بیٹے کے لیے رب کائنات سے سے نجات طلب کرنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صرف اسی سے اپنے لیے بیٹا مانگنا، مشکلات و مصائب میں گھرے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صرف اپنے رب کو پکارنا، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز کرنا، اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صرف ذات باری تعالیٰ سے شفا طلب کرنا، یہ سارے واقعات اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی مالک ذی اختیار نہیں ہے جو مصیبت رفع کر سکتا ہو!
لیکن ان تمام شواہد و دلائل کے برعکس بریلوی حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کسی نبی یا رسول یا ولی سے وابستہ ہوتا ہے، وہ مصائب و مشکلات میں اس کی دستگیری کرتا ہے۔ [1]
احمد رضا بریلوی کے ایک پیروکار یوں رقمطراز ہیں :
اولیائے کرام ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھتے ہیں۔ اور بعید و قریب کی آوازیں سنتے، یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرتے اور صدہا کوس پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ "[2]
ایک طرف ان حضرات کا یہ عقیدہ ہے۔۔۔۔۔ اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ فرما رہے ہیں کہ "اپنی حاجت صرف خدا سے طلب کر، فقط اسی سے کر! قلم کی سیاہی خشک ہو چکی ہے ساری کائنات مل کر بھی تجھے نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان! "[3]
[1] فتاویٰ افریقہ از بریلوی ص 135۔
[2] جاء الحق ص 138،139۔
[3] جامع الترمذی۔