کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 86
اس کو تکلیف دیں۔ اگر تو تنگی یا مصیبت میں پکارے، اے زروق! میں فوراً آؤں گا۔ "[1] اسی طرح ابن علوان بھی ان اختیارات کے مالک ہیں۔ چنانچہ منقول ہے : جس کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے اور وہ چاہے کہ خدا وہ چیز واپس ملا دے، تو کسی اونچی جگہ پر قبلہ کو منہ کر کے کھڑا ہو اور سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبی علیہ السلام کو ہدیہ کرے، پھر سیدی احمد بن علوان کو پکارے اور پھر یہ دعا پڑھے اے میرے آقا احمد بن علوان، اگر آپ نے میری چیز نہ دی تو میں آپ کو دفتر اولیاء سے نکال دوں گا۔ "[2] سید محمد حنفی بھی مشکلات کو دور کرنے والے ہیں۔ جناب بریلوی لکھتے ہیں : "سیدی محمد شمس الدین محمد حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حجرہ خلوت میں وضو فرما رہے تھے، ناگاہ ایک کھڑاؤں ہوا پر پھینکی کہ غائب ہو گئی۔۔۔۔۔ حالانکہ حجرے میں کوئی راہ اس کے ہوا پر جانے کی نہ تھی۔ دوسری کھڑاؤں اپنے خادم کو عطا فرمائی کہ اسے اپنے پاس رہنے دے، جب تک وہ پہلی واپس آئے۔ ایک مدت کے بعد ملک شام سے ایک شخص وہ کھڑاؤں مع ہدایا لے کر حاضر ہوا اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو جزائے خیر دے جب چور میرے سینے پر ذبح کرنے بیٹھا میں نے اپنے دل میں کہا "یا سیدی محمد حنفی" اسی وقت یہ کھڑاؤں غیب سے آ کر اس کے سینے پر لگی کہ غش کھا کر الٹا ہو گیا۔ "[3] سید بدوی بھی مصائب و مشکلات میں بندوں کی مدد کرتے ہیں : "جب بھی کوئی مصیبت پیش آئے تو وہ یہ کہے :"یا سیدی احمد بدوی خاطر معی!" "اے میرے آقا احمد بدوی میرا ساتھ دیجئے۔ "[4] سید احمد بدوی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:" جسے کوئی حاجت ہو تو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر اپنی حاجت مانگے تو میں اس کی
[1] حیات الممات از بریلوی درج در فتاویٰ رضویہ ج 4 ص 200 و جاء الحق ص 199۔ [2] جاء الحق ص 199۔ [3] انوار الانتباہ فی حل نداء یا رسول اللہ،مندرج در مجموعہ رسائل رضویہ جلداول ص 180 مطبوعہ کراچی۔ [4] ایضاً۔