کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 74
اب ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کی حجت تو نبی کی ذات ہی ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات سمجھنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جناب خاں صاحب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ان کی بات کو ٹھکرایا گیا اور ان کی اتباع اور اطاعت سے انکار کیا گیا، تو یہ رب کائنات کی طرف سے پیش کی جانے والی دلیل و حجت کو ٹھکرانے کے مترادف ہو گا۔ ان تمام مبالغہ آ میز دعووں سے ثابت ہوتا ہے کہ خاں صاحب بریلوی کے متبعین ان کی ذات کو مقدس قرار دینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ ہم گزشتہ صفحات میں یہ بیان کر آئے ہیں کہ بریلوی حضرات اپنے مجدد اعلیٰ حضرت کو غلطیوں سے مبرا اور معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں۔ اور بلاشبہ "عصمت" انبیائے کرام علیہ السلام کی خاصیت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی امتی کو معصوم سمجھنا ختم نبوت سے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور سوء الاعتقادی سے محفوظ رکھے۔ آمین! گزشتہ غلو آمیز دعووں کے علاوہ چند اور مبالغات کا ذکر کر کے ہم اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ : ساڑھے تین برس کی عمر میں جناب احمد رضا ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے صرف ایک بڑا سا کرتہ زیب تن کیا ہوا تھا سامنے سے طوائفیں آ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنا کرتہ اٹھایا اور دامن سے آنکھیں چھپالیں۔ طوائفوں نے کہا"واہ منے میاں آنکھیں تو چھپا لیں مگر ستر ننگا کر دیا۔ " ساڑھے تین برس کی عمر میں بریلویت کے موسس نے جواب دیا: "جب نظر بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے، اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے۔ "[1] اب ان سے کوئی پوچھے کے ساڑھے تین برس کی عمر میں خاں صاحب کو کیسے علم ہو گیا کہ آنے والی طوائفیں ہیں؟ اور پھر جس بچے نے ابھی ستر ڈھانپنا شروع نہ کیا ہو، اسے نظر اور دل کے بہکنے سے ستر کے بہکنے کا جنسی راز کیسے معلوم ہو گیا؟
[1] سوانح اعلیٰ حضرت از بدرالدین ص 110،و انوار رضا۔