کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 65
جس میں انہوں نے واضح کیا کہ چونکہ خلافت شرعیہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے، اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ترکوں کی حمایت ضروری نہیں، کیونکہ وہ قریشی نہیں ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کی بھرپور مخالفت کی اور انگریزی استعمار کی مضبوطی کا باعث بنے۔ احمد رضا خاں صاحب تحریک خلافت کے مسلم زعماء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رقمطراز ہیں : "ترکوں کی حمایت تو محض دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اصل مقصود یہ ہے کہ خلافت کا نام لو۔ عوام بپھریں، خوب چندہ ملے اور گنگا و جمنا کی مقدس سر زمینیں آزاد ہوں۔ "[1] جناب احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی بھی شدید مخالفت کی۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ یہ تحریک انگریز کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔ تحریک ترک موالات کا مقصود یہ تھا کہ انگریزوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہیں ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی نہ کی جائے، اس کے تحت چلنے والے سرکاری محکموں میں ملازمت نہ کی جائے، غرضیکہ ان کی حکومت کو یکسر مسترد کر دیا جائے، تاکہ وہ مجبور ہو کر ہندوستان کی سرزمین سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے لیے تمام مسلمانوں نے 1920ء میں متحد ہو کر جدوجہد شروع کر دی۔ جس سے انگریز حکومت کے خلاف ایک فتنہ کھڑا ہو گیا اور وہ متزلزل ہونے لگی۔ اس تحریک کو گاندھی کے علاوہ جناب احمد رضا نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اور ایک رسالہ تحریر کر کے اس کی سختی سے ممانعت کی اور اس تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے۔ چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے تحریر کئے گئے رسالے ﴿والمحجتہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنۃ﴾ میں اعتراف کرتے ہیں۔ "اس تحریک کا ہدف انگریز سے آزادی کا حصول ہے "۔ [2]
[1] دوام العیش ص 63 مطبوعہ بریلی و ص 95 مطبوعہ لاہور۔ [2] المحبتہ الموتمنتہ از احمد رضا ص 155۔