کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 64
انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے اور مولانا محمد علی جو ہر رحمہ اللہ اور دوسرے اکابرین کی زیر قیادت خلافت اسلامیہ کے تحفظ و بقاء کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑ رہے تھے، عین اس وقت جناب احمد رضا انگریزوں کے مفاد میں جانے والی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
بلاشبہ تحریک خلافت، انگریزوں کو ان کی بدعہدی پر سزا دینے کے لیے نہایت موثر ثابت ہو رہی تھی۔ تمام مسلمان ایک پرچم تلے جمع ہو چکے تھے۔ علماء و عوام اس تحریک کی حمایت کر رہے تھے۔ خود ایک بریلوی مصنف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے :
"1918ء میں جنگ عظیم ختم ہوئی، جرمنی اور اس کے ساتھیوں ترکی آسٹریا وغیرہ کو شکست ہوئی، ترکوں سے آزادی ہند کے متعلق ایک معاہدہ طے پایا۔ لیکن انگریزوں نے بدعہدی اور وعدہ خلافی کی، جس سے مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا۔ چنانچہ وہ بپھر گئے اور ان کے خلاف ہو گئے۔ اہل سیاست اس فکر میں تھے کہ کسی ترکیب سے انگریزوں کو وعدہ خلافی کی سزا دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ خلافت اسلامیہ کا تحفظ فرائض و واجبات میں سے ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔" [1]
اور حقیقتاً تحریک خلافت انگریزوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہو رہی تھی۔ مسلمان انگریزوں کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔ قریب تھا کہ یہ تحریک انگریزی سلطنت کے خاتمہ کا باعث بن جاتی۔ اس امر کی وضاحت اہل حدیث جید عالم دین امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔ [2]
مگر بریلوی مکتب فکر کے امام و مجدد نے انگریزوں کے خلاف چلنے والی اس تحریک کے اثرات و نتائج کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے دوستی کا ثبوت دیا اور تحریک خلافت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک دوسرا رسالہ "دوام العیش" کے نام سے تالیف کیا،
[1] مقدمہ دوام العیش از مسعود احمد ص 15۔
[2] ایضاً ص 17۔