کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 46
کہ ان کی مساجد کا حکم عام گھروں جیسا ہے انہیں خدا کا گھر تصور نہ کیا جائے۔ اسی طرح انہوں نے اہل سنت کے ساتھ مجالست و مناکحت کو حرام قرار دیا۔ اور جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے تو وہ ان کے اماموں کے باڑوں کے ابجدی ترتیب سے نام تجویز کرتے رہے۔ [1]
[1] ۔ ان یبوس : فرماتے ہیں کہ یہ عجمی لفظ ہے اس لیے عربی میں اس کا استعمال نا درست ہے۔ موصوف کو اگر عربی ادب سے ذرا سی بھی واقفیت ہوتی تو شاید یہ بات لکھ کر علمی حلقوں میں جگ ہنسائی کا باعث نہ بنتے۔ کیونکہ عربی زبان میں اس کا استعمال عام رائج ہے۔ ملاحظہ ہو المنجد مادہ ب وس، باسہ، بوسا، قبلہ 6۔ ترک التکایا : لکھتے ہیں یہ عجمی لفظ ہے، حالانکہ یہ "اتکا" سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے : اسند ظھرہ الیٰ شئی" ملاحظہ ہو المنجد مادہ وک ا 7۔رسید : ان کا اعتراض ہے یہ لفظ عربی زبان میں مستعمل نہیں حالانکہ عرب ممالک میں رسید الامتعتہ کا استعمال عام رائج ہے۔ اسے رصید بھی لکھا جاتا ہے۔ المنجد میں ہے (انظر مادہ رص د) 8۔اصدر وافرمانا : المنجد مادہ ف رم۔ الفرمان ج فرامین ای عھد السطان للولاۃ وہ الفاظ و کلمات جو عربی کے ساتھ ساتھ دوسری لغات میں بھی استعمال ہوتے ہیں، ان کا استعمال غلط نہیں ہے۔ ان کی تغلیط جہالت کی واضح دلیل ہے۔ 9۔ کتب فیہا لال البیت : شیعہ کے نزدیک آل بیت اور اہل بیت کا مفہوم ایک ہی ہے "البریلویہ" کی اس عبارت میں آل بیت کا استعمال ہی صحیح ہے، کیونکہ اس احمد رضا صاحب نے شیعوں کی ترجمانی کی ہے۔ 10۔ ومن جاء : ان کی تصحیح الیٰ من جاء سے کی ہے۔ یہاں الیٰ کا استعمال اس لیے نہیں کیا گیا کہ پہلی الیٰ پر عطف ہے۔ اس لیے دوبارہ استعمال ضروری نہ رہا۔ علاوہ ازیں کچھ غلطیاں ایسی درج ہیں جو کتابت و طباعت کی ہیں۔ مثلاً کبیب النمل! کہ اصل میں ہے "کدبیب النمل" ٹائپ کی غلطی سے و حذف ہو گئی ہے۔ اسی طرح القرأت میں ء کی جگہ ۃ غلطی سے ٹائپ ہو گیا ہے۔ مناصرۃ للاستعمار۔ کہ اصل میں مناصرۃ للاستعمار یا استرقاق کی بجائے استر تقاق وغیرہ۔ بہرحال غلطیوں کی یہ فہرست قادری صاحب کی عربی زبان پر عدم قدرت کی بین اور واضح دلیل ہے۔ بریلویت کے حاملین کی علمیت پہلے ہی مشکوک تھی، قادری صاحب نے اس پر مہر ثبت کر دی ہے۔ (ثاقب)  ملاحظہ ہو یاد اعلیٰ حضرت ص 29