کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 41
3۔ انہوں نے مسلمانوں میں شیعہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشر و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔ [1]
کوئی ظاہری شیعہ اپنے اس مقصد میں اتنا کامیاب نہ ہوتا، جتنی کامیابی احمد رضا صاحب کو اس سلسلے میں تقیہ کے لبادے میں حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے تشیع پر پردہ ڈالنے کے لیے چند ایسے رسالے بھی تحریر کیے جن میں بظاہر شیعہ مذہب کی مخالفت اور اہل سنت کی تائید پائی جاتی ہے۔ شیعہ تقیہ کا یہی مفہوم ہے، جس کا تقاضا انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔
4۔ جناب احمد رضا نے اپنی تصنیفات میں ایسی روایات کا ذکر کثرت سے کیا ہے جو خالصتاً شیعی روایات ہیں اور ان کا عقیدہ اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
مثلاً:
ا۔"انّ علیّا قسیم النار۔ "
ب۔"انّ فاطمۃ سمّیت بفاطمۃ لانّ اللّٰه فمھا و ذریّتھا من النّار۔ "
یعنی"حضرت علی رضی اللہ عنہ قیامت کے روز جہنم تقسیم کریں گے۔ [2] اور "حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔ [3]
ج۔شیعہ کے اماموں کو تقدیس کا درجہ دینے کے لیے انہوں نے یہ عقیدہ وضع کیا کہ اغواث (جمع غوث، یعنی مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والے ) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے حسن عسکری تک پہنچتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے وہی ترتیب ملحوظ رکھی، جو شیعہ کے اماموں کی ہے۔ [4]
[1] فتاویٰ بریلویہ ص 14
[2] الامن والعلی مصنفہ احمد رضا بریلوی ص 58
[3] ختم نبوت از احمد رضا ص 98
[4] ملفوظات ص 115