کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 38
کیا۔ جواب بالکل درست (صحیح) تھا۔ آپ کے والد ماجد نے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ لگا لیا اور اس دن سے فتویٰ نویسی کا کام آپ کے سپرد کر دیا۔ "
اس سے پہلے آٹھ سال کی عمر مبارک میں آپ نے ایک مسئلہ وراثت کا جواب تحریر فرمایا:۔
"واقعہ یہ ہوا کہ والد ماجد باہر گاؤں میں تشریف فرما تھے۔ کہیں سے سوال آیا، آپ نے اس کا جواب لکھا اور والد صاحب کی واپسی پر ان کو دکھایا۔ جسے دیکھ کر ارشاد ہوا معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ امن میاں (اعلیٰ حضرت)نے لکھا ہے۔ ان کو ابھی نہ لکھنا چاہئے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس جیسا کوئی بڑا مسئلہ کوئی لکھ کر دکھائے تو جانیں۔ "[1]
اس نص سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت صاحب نے آٹھ برس کی عمر میں فتویٰ نویسی کا آغاز کر دیا تھا۔ مگر خود اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :
"سب سے پہلا فتویٰ میں نے 1286ء میں لکھا تھا، جب میری عمر 13 برس تھی۔ اور اسی تاریخ کو مجھ پر نماز اور دوسرے احکام فرض ہوئے تھے۔ "[2]
یعنی بستوی صاحب فرما رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے آٹھ برس کی عمر میں ہی وراثت جیسے پیچیدہ مسئلے کے متعلق فتویٰ صادر فرما دیا تھا جب کہ خود اعلیٰ حضرت صاحب اس کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا فتویٰ 13 برس کی عمر میں دیا تھا۔ "
اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے 14 برس کی عمر میں ہی تعلیم مکمل کر کے سند فراغت حاصل کر لی تھی۔ [3]
[1] اعلیٰ حضرت بریلوی ص 32
[2] من ہو احمد رضا از قادری ص 17 (یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ حضورؐ کی شریعت میں نماز دس برس کی عمر میں فرض ہے اور جناب احمد رضا پر نماز 13 برس کی عمر میں فرض ہوئی(ناشر)
[3] ملاحظہ ہو حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص 33۔ ایضاً انوار رضا صفحہ 357 وغیرہ