کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 37
کہتا ہے :
"اعلیٰ حضرت کی زیارت نے صحابہ کرام کی زیارت کا شوق کم کر دیا ہے "۔ [1]
مبالغہ آرائی کرتے وقت عموماً عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بریلوی مصنف اس کا مصداق بنتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :"ساڑھے تین سال کی عمر شریف کے زمانے میں ایک دن اپنی مسجد کے سامنے جلوہ افروز تھے کہ ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں تشریف لائے اور آپ سے عربی زبان میں گفتگو فرمائی۔ آپ نے ( ساڑھے تین برس کی عمر میں ) فصیح عربی میں ان سے کلام کیا اور اس کے بعد ان کی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔ "[2]
ایک صاحب لکھتے ہیں :
ایک روز استاد صاحب نے فرمایا:احمد میاں تم آدمی ہو کہ جن؟ مجھے پڑھاتے ہوئے دیر نہیں لگتی ہے، لیکن تمہیں یاد کرتے دیر نہیں لگتی۔ دس برس کی عمر میں ان کے والد، جو انہیں پڑھاتے بھی تھے، ایک روز کہنے لگے تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ پڑھاتے ہو۔ "[3] یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ [4] جناب بستوی صاحب کم سنی میں اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
14 برس کی عمر میں آپ سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ اسی دن رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والد ماجد قبلہ کی خدمت عالی میں پیش
[1] وصایا شریف ص 24
[2] حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص 22
[3] مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد 2 ص 6
[4] بستوی ص 32