کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 34
خود اہل زبان عرب میں سے تو کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لا یعنی قاعدے کو پہچان سکے اور اس کی وضاحت کر سکے۔ لیکن ان عجمیوں نے الف اور لام کے درمیان صورت و سیرت کے لحاظ سے مناسبت کو پہچان کر اس کی وضاحت کر دی۔ دراصل بریلوی قوم اپنے امام کو انبیاء ا ور رسل سے تشبیہ ہی نہیں، بلکہ ان پر افضلیت دینا چاہتی ہے اور یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ان کے امام و قائد کو کسی کی طرف سے تعلیم دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا سینہ علوم و معارف کا مرکز و محیط بن چکا تھا اور تمام علوم انہیں وہبی طور پر عطا کیے جا چکے تھے۔ اس امر کی وضاحت نسیم بستوی کی اس نص سے بھی ہو جاتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں : "عالم الغیب نے آپ کا مبارک سینہ علوم و معارف کا گنجینہ اور ذہن و دماغ و قلب و روح کو ایمان و یقین کے مقدس فکر و شعور اور پاکیزہ احساس و تخیل سے لبریز فرما دیا تھا۔ لیکن چونکہ ہر انسان کا عالم اسباب سے بھی کسی نہ کسی نہج سے رابطہ استوار ہوتا ہے، اس لیے بظاہر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ) کو بھی عالم اسباب کی راہوں پر چلنا پڑا۔ (انوار رضا ص 55 بستوی ص 27) [1] یعنی ظاہری طور پر تو جناب احمد رضا صاحب نے اپنے اساتذہ سے اکتساب علم کیا مگر حقیقی طور پر وہ ان کی تعلیم کے محتاج نہ تھے، کیونکہ ان کا معلم و مربی خود رب کریم تھا۔ جناب بریلوی خود اپنے متعلق لکھتے ہیں : "درد سر اور بخار وہ مبارک امراض ہیں جو انبیاء علیہم السلام کو ہوتے تھے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں : "الحمد للہ کہ مجھے اکثر حرارت اور درد سار رہتا ہے۔ [2] جناب احمد رضا یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کی جسمانی کیفیت انبیاء کرام علیہم السلام سے مشابہت رکھتی ہے۔ اپنی تقدیس ثابت کرنے کے لیے ایک جگہ فرماتے ہیں :
[1] انوار رضا ص 355 . بستوی ص 27 [2] ملفوظات جلد 1 ص 64