کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 33
تو آپ نے خاموشی اختیار فرما لی۔ استاد نے دوبارہ کہا کہ "کہو میاں لام الف" حضور نے فرمایا کہ یہ دونوں تو پڑھ چکے پھر دوبارہ کیوں؟
اس وقت آپ کے جد امجد مولانا رضا علی خان صاحب قدس سرہ العزیز نے فرمایا "بیٹا استاد کا کہا مانو۔ "
حضور نے ان کی طرف نظر کی۔ جد امجد نے اپنی فراست ایمانی سے سمجھ لیا کہ بچے کو شبہ ہے کہ یہ حرف مفردہ کا بیان ہے۔ اب اس میں ایک لفظ مرکب کیوں آیا؟ اگر بچے کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو منکشف کرنا مناسب نہ تھا، مگر حضرت جد امجد نے خیال فرمایا کہ یہ بچہ آگے چل کے آفتاب علم و حکمت بن کر افق عالم پر تجلی ریز ہونے والا ہے، ابھی سے اسرار و نکات کے پردے اس کی نگاہ و دل پر سے ہٹا دئیے جائیں۔ چنانچہ فرمایا:"بیٹا تمہارا خیال بجا و درست ہے، لیکن پہلے جو حرف الف پڑھ چکے ہو وہ دراصل ہمزہ ہے اور یہ الف ہے۔، لیکن الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے اور ساکن کے ساتھ چونکہ ابتداء ناممکن ہے، اس لئے ایک حرف یعنی لام اول میں لا کر اس کی ادائیگی مقصود ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں کہا تو کوئی بھی حرف ملا دینا کافی تھا، لام ہی کی کیا خصوصیت ہے؟ با،تا،دال اور سین بھی شروع میں لا سکتے تھے۔
جد امجد علیہ الرحمہ نے انتہائی جوش محبت میں آپ کو گلے لگا لیا اور دل سے بہت سی دعائیں دیں۔ پھر فرمایا کہ لام اور الف میں صورتاً خاص مناسبت ہے۔ اور ظاہراً لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک ہی ہے۔ لایا لا اور سیرت اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ہے اور الف کا قلب لام"۔ [1]
اس بے معنی عبارت کو ملاحظہ فرمائیے۔ اندازہ لگائیں کہ بریلوی حضرات چار برس کی عمر میں اپنے اعلیٰ حضرت کی ذہانت و فراست بیان کرنے میں کس قسم کے علم کلام کا سہارا لے رہے ہیں اور لغو قسم کے قواعد و ضوابط کو بنیاد بنا کر ان کے ذریعہ سے اپنے امام کی علمیت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
[1] البریلوی از بستوی ص 26، 27، انوار رضا ص 355 وغیرہ