کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 32
یہی وجہ تھی کہ لوگ ان سے متنفر ہونا شروع ہو گئے۔ بہت سے ان کے مخلص دوست بھی ان کی عادت کے باعث ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان میں سے مولوی محمد یٰسین بھی ہیں جو مدرسہ اشاعة العلوم کے مدیر تھے اور جنہیں جناب احمد رضا اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے، وہ بھی ان سے علیحدہ ہو گئے۔ [1] اس پر مستزاد یہ کہ مدرسہ مصباح التہذیب جو ان کے والد نے بنوایا تھا، وہ ان کی ترش روئی، سخت مزاجی، بذات لسانی اور مسلمانوں کی تکفیر کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس کے منتظمین ان سے کنارہ کشی اختیار کر کے وہابیوں سے جا ملے۔ اور حالت یہ ہو گئی کہ بریلویت کے مرکز میں احمد رضا صاحب کی حمایت میں کوئی مدرسہ باقی نہ رہا۔ باوجودیکہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت وہاں اپنی تمام تر سرگرمیوں سمیت موجود تھے۔ [2] جہاں تک بریلوی حضرات کا تعلق ہے تو دوسرے باطل فرقوں کی مانند اپنے امام و قائد کے فضائل و مناقب بیان کرتے وقت بہت سی جھوٹی حکایات اور خود ساختہ کہانیوں کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بریلوی حضرات اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جھوٹ کسی کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے اس کی تذلیل اور استہزاء کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: "آپ کی ذہانت و فراست یہ عالم تھا کہ چار برس کی مختصر عمر میں، جس میں عموماً دوسرے بچے اپنے وجود سے بھی بے خبر ہوتے ہیں، قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔ آپ کی رسم بسم اللہ خوانی کے وقت ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے لوگوں کو دریائے حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔ حضور کے استاد محترم نے آپ کو "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھانے کے بعد الف،با،تا،پڑھایا۔ پڑھاتے پڑھاتے جب لام الف (لا) کی نوبت آئی
[1] حیات اعلیٰ حضرت ص 211 [2] ایضاً ص 211