کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 29
اس بات کا اعتراف ان کے بھتیجے نے بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں : "ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ گہرا گندمی تھا۔ لیکن مسلسل محنت ہائے شاقہ نے آپ کی رنگت کی آب و تاب ختم کر دی تھی۔[1] جناب احمد رضا نحیف و نزار تھے۔[2] درد گردہ اور دوسری کمزور کر دینے والی بیماریوں میں مبتلا تھے [3] کمر کی درد کا شکار رہتے۔[4] اسی طرح سر درد اور بخار کی شکایت بھی عموماً رہتی۔[5] ان کی دائیں آنکھ میں نقص تھا۔ اس میں تکلیف رہتی اور وہ پانی اتر آنے سے
[1] اعلیٰ حضرت از بستوی ص 20 [2] حیات اعلیٰ حضرت مصنفہ ظفر الدین بہاری جلد 1 ص 35 [3] ملاحظہ ہو مضمون حسنین رضا درج شدہ اعلیٰ حضرت بریلوی ص 20 [4] بستوی ص 28 [5] ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 64 بے نور آنکھ جناب عبدالحکیم صاحب کو شکایت ہے کہ مصنف نے یہاں بھی حضرت صاحب کی آنکھ کے نقص کا ذکر کیوں کیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی انسانی حلئے کا ایک حصہ ہے اور اس پر غیض و غضب کا اظہار کسی طور پر بھی روا نہیں۔ جواب میں قادری صاحب رقمطراز ہیں کہ : حقیقتاً یہ بالکل خلاف واقع ہے۔ ہوا یہ کہ 1300ھ میں مسلسل ایک مہینہ باریک خط کی کتابیں دیکھتے رہے۔ گرمی کی شدت کے پیش نظر ایک دن غسل کیا۔ سر پر پانی پڑتے ہی معلوم ہوا کہ کوئی چیز دماغ سے داہنی آنکھ میں اتر آئی ہے۔ بائیں آنکھ بند کر کے داہنی سے دیکھا تو وسط سے مرئی میں ایک سیاہ حلقہ نظر آیا۔ " جناب قادری صاحب نے یہ عبارت "ملفوظات" سے ذکر کی ہے، لیکن علمی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل عبارت تحریر کرنے کی بجائے عبارت کا اگلا حصہ حذف کر گئے ہیں۔ اس کے متصل بعد ملفوظات میں لکھا ہے : دائیں آنکھ کے نیچے شے کا جتنا حصہ ہوتا ہے (یعنی جس چیز کو دائیں آنکھ سے دیکھتے ) وہ ناصاف اور دبا معلوم ہوتا۔ " اس عبارت کو چھوڑنے کا مطلب سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ قادری صاحب اپنے اعلیٰ حضرت کی آنکھ کے نقص کو چھپانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسی چیز نہیں جس کے ذکر پر ندامت محسوس کی جائے۔ کسی آنکھ میں نقص کا پایا جانا انسان کے بس کی بات نہیں، ربّ کائنات کا اختیار ہے، لہٰذا ہم قادری صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اظہار مذمت کی بجائے اعتراف حقیقت کر لیں۔ (ثاقب)