کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 254
بریلوی حضرات حکایات سے جو کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں، قرآن مجید کی آیات اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ ہم ایک اور حکایت بیان کر کے اس بات کو ختم کرتے ہیں۔ جناب بریلوی ارشاد کرتے ہیں : "ایک صاحب پیر کامل کی تلاش میں تھے۔ بہت کوشش کی، مگر پیر کامل نہ ملا۔ طلب صادق تھی۔ جب کوئی نہ ملا تو مجبور ہو کر ایک رات عرض کیا، اے رب تیری عزت کی قسم! آج صبح کی نماز سے پہلے جو ملے گا، اس سے بیعت کر لوں گا۔ صبح کی نماز پڑھنے جا رہے تھے، سب سے پہلے راہ میں ایک چور ملا جو چوری کے لیے آ رہا تھا۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ لیا کہ حضرت بیعت لیجئے۔ وہ حیران ہوا، بہت انکار کیا، نہ مانے۔ آخر کار اس نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ حضرت میں چور ہوں، یہ دیکھئے چوری کا مال میرے پاس موجود ہے۔ آپ نے فرمایا! میرا تو میرے رب سے عہد ہے کہ آج صبح کی نماز سے پہلے جو بھی ملے گا بیعت کر لوں گا۔ اتنے میں حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تشریف لائے اور چور کو مراتب دیے، تمام مقامات فوراً طے کر لیے، ولی کیا اور اس سے بیعت لی اور انہوں نے ان سے بیعت لی۔ "[1] یہ ہیں بریلویوں کی حکایات۔ ان حکایات سے بریلوی حضرات ایسے عقائد ثابت کرنا چاہتے ہیں، جن کا وجود کتاب و سنت میں نہیں ہے۔ اور ان آیات و احادیث کے مقابلے میں وہ انہیں دلائل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ ﴿ ذَلِکَ مَبلَغُھُم مِّنَ العِلمِ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ وَھُوَ اَعلَمُ بِمَنِ اھتَدیٰ﴾[2] "یہ ہے ان کے علم کی حد! بے شک تیرا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور ان سے بھی بخوبی واقف ہے جو
[1] حکایات رضویہ ص 71،72۔ [2] سورۃ النجم آیت 30