کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 252
"تو بھی انہی میں سے ہے۔ " "اس پر سے بھی عذاب اٹھا لیا گیا! "[1] خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں : "حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ دعوت میں تشریف لے گئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک لڑکا کھانا کھا رہا ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے دفعتاً رونے لگا۔ وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ میری ماں کو جہنم کا حکم ہے اور فرشتے اسے لیے جاتے ہیں۔ حضرت شیخ اکبر کے پاس کلمہ طیبہ ستر ہزار پڑھا ہوا محفوظ تھا۔ آپ نے اس کی ماں کو دل میں ایصال ثواب کر دیا۔ فوراً وہ لڑکا ہنسا۔ آپ نے ہنسنے کا سبب دریافت فرمایا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ حضور! میں نے ابھی دیکھا، میری ماں کو فرشتے جنت کی طرف لیے جاتے ہیں۔ "[2] یہ ہیں بریلوی حضرات کے وہ قطعی دلائل جن کا انکار کفر و ارتداد کے مترادف ہے۔ جو ان کا منکر ہو گا اس پر وہابی کافر کا فتویٰ لگا دیا جائے گا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بریلوی حضرات ان حکایات و اساطیر کے ذریعے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو خود ساختہ بزرگان دین کا غلام بنانا چاہتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مخلوق کو دور کرنے کے لیے یہ تاثر بھی دینا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام اختیارات و تصرفات ان اولیاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ اب فریاد رسی و حاجت روائی صرف اولیاء سے ہی کی جائے گی۔ رب کائنات سے مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ لینا ہے وہ بزرگوں سے لیا جائے، جو مانگنا ہو وہ ان سے مانگا جائے۔ یہی مدد فرمانے والے اور فریاد رسی کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات انہیں تفویض کر کے خود معاذ اللہ،
[1] حکایات رضویہ ص 57،58،ایضاً ملفوظات احمد رضا ص 200،201۔ [2] ملفوطات احمد رضا ص 82، ایضاً حکایات رضویہ ص 48۔