کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 251
کہا ‘حافی نے انتقال کیا۔ تحقیق کے بعد یہ امر نکلا۔ "[1] اولیاء کرام چاہیں تو اہل قبور پر سے عذاب بھی اٹھا سکتے ہیں۔ دلیل ملاحظہ ہو: "ایک بار حضرت سیدی اسماعیل حضرمی ایک قبرستان میں سے گزرے۔ امام محبّ الدین طبری بھی ساتھ تھے۔ حضرت سیدی اسماعیل نے ان سے فرمایا: ﴿ اتؤمن بکلام الموتیٰ؟﴾ "کیا آپ اس پر ایمان لاتے ہیں کہ مُردے زندوں سے کلام کرتے ہیں؟" عرض کیا، ہاں۔ فرمایا، اس قبر والا مجھ سے کہہ رہا ہے : ﴿ انا من حشوب الجنت﴾ "میں جنت کی بھرتی میں سے ہوں۔ " آگے چلے، چالیس قبریں تھیں۔ آپ بہت دیر تک روتے رہے، یہاں تک کہ دھوپ چڑھ گئی۔ اس کے بعد آپ ہنسے اور فرمایا، تو بھی انہیں میں ہے۔ لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تو عرض کی، حضرت! یہ کیا راز ہے؟ ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا؟ فرمایا، ان قبور پر عذاب ہو رہا تھا، جسے دیکھ کر میں روتا رہا اور میں نے شفاعت کی۔ مولا تعالیٰ نے میری شفاعت قبول فرمائی اور ان سے عذاب اٹھا لیا۔ ایک قبر گوشے میں تھی، جس کی طرف میرا خیال نہ گیا تھا۔ اس میں سے آواز آئی: ﴿ یا سیدی انا منھم انا فلانۃ المغنیۃ﴾ "اے میرے آقا! میں بھی تو انہیں میں ہوں، میں فلاں گانا گانے والی ڈومنی ہوں۔ " مجھے اس کے کہنے پر ہنسی آ گئی میں میں نے کہا: ﴿ انت منھم﴾
[1] حکایات رضویہ ص 172۔