کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 246
"میں جب دور تھا تو اپنی روح بھیج دیتا تھا کہ میری طرف سے زمین کو بوسہ دے تو وہ میری نائب تھی۔ اب باری میرے بدن کی ہے کہ جسم خود حاضر ہے۔ دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب اس سے بہرہ پائیں۔
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دست مبارک روضہ شریف میں سے ظاہر ہوا اور امام رفاعی نے اس پر بوسہ دیا۔ "[1]
یہ تو تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ان کا عقیدہ۔ اب یہی عقیدہ ان کے اپنے بزرگان دین کے متعلق ملاحظہ فرمائیں :
"امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ ہر سال حضرت سید احمد بدوی کبیر رضی اللہ عنہ کے عرس پر حاضر ہوتے۔ ایک دفعہ انہیں تاخیر ہو گئی تو مجاوروں نے کہا کہ تم کہاں تھے؟ حضرت بار بار مزار مبارک سے پردہ اٹھا کر فرماتے رہے ہیں :
عبدالوہاب آیا؟ عبدالوہاب آیا؟[2]
(جب مجاوروں نے یہ ماجرا سنایا) تو عبدالوہاب شعرانی کہنے لگے :
کیا حضور کو مرے آنے کی اطلاع ہوتی ہے؟
مجاوروں نے کہا: اطلاع کیسی؟ حضور تو فرماتے ہیں کہ کتنی ہی منزل پر کوئی شخص میرے مزار پر آنے کا ارادہ کرے، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اس کی حفاظت کرتا ہوں۔ "[3]
اس پر مستزاد کہ:
[1] رسالہ ابرالمقال فی قبلۃ الاجلال درج شدہ در مجموعہ رسائل از بریلوی ص 173۔
[2] ایک طرف تو ان حضرات کا عقیدہ ہے کہ اولیائے کرام کو غیب کی تمام باتوں کا علم ہوتا ہے،دوسری طرف کہتے ہیں کہ شیخ بدوی مجاوروں سے پوچھتے رہے کہ عبدالوہاب آیا یا نہیں؟ا گر غیب کا علم تھا تو بار بار عبدالوہاب کی آمد کے متعلق استفسار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس بات کا کیا مفہوم ہے کہ میں مزاروں پر آنے کا ارادہ کرنے والے ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہوں اور اس کی حفاظت کرتا ہوں؟ کیسا عجیب اور دلچسپ تضاد ہے؟۔
[3] ملفوظات بریلوی ص 275۔