کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 244
حضور ہبہ فرماتے ہیں۔ وہ تاجر حاضر ہوا اور اس نے وہ کنیز مزار اقدس کی نذر کی۔ "[1]
خادم کو اشارہ ہوا، انہوں نے وہ آپ کی نذر کر دی۔
(صاحب مزار ) نے ارشاد فرمایا، اب دیر کاہے کی ہے؟ فلاں حجرہ [2]میں لے جاؤ اور اپنی حاجت پوری کرو! [3]
جنابب بریلوی دراصل ان حکایتوں سے ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اولیائے کرام کو غیب کا علم حاصل ہے۔ وہ اپنے مریدوں کے دلوں کی باتوں سے نہ صرف واقف ہیں، بلکہ ان کی خواہشات کی تکمیل پر قدرت و تصرف بھی رکھتے ہیں۔ دعویٰ اور پھر اس کی دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں کہ صرف مرشد اور پیر ہی علم غیب نہیں رکھتے، بلکہ ان کے مریدوں سے بھی کوئی چیز مخفی نہیں رہتی۔ فرماتے ہیں :
"حضرت سیدی سید محمد گیسو دراز قدس سرہ کہ اکابر علماء اور اجلہ سادات سے تھے۔ جوانی کی عمر تھی۔ سادات کی طرح شانوں تک گیسو رکھتے تھے۔ ایک بار سر راہ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی سواری نکلی، انہوں نے اٹھ کر زانوئے مبارک پر بوسی دیا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا:
"سیدفروترک" سید! اور نیچے بوسی دو۔ انہوں نے پائے مبارک پر بوسہ لیا۔ فرمایا"سید فروترک" انہوں نے گھوڑے کے سم پر بوسہ دیا۔ ایک گیسو کہ رکاب مبارک میں الجھ گیا تھا، وہیں الجھا رہا اور رکاب سم تک بڑھ گیا۔ حضرت نے فرمایا"سید فروترک" انہوں نے ہٹ کر زمین پر بوسہ دیا۔ گیسو رکاب مبارک سے جدا کر کے
[1] کنیزوں کو مزاروں کی نذر کرنے کے بعد کیا اس میں ہندوؤں اور دورجاہلیت کی نذر ونیاز میں کوئی فرق باقی رہ جاتا ہے؟ نستغفراللہ!
[2] کیا اسی مقصد کے لیے مزاروں کے پہلوؤں میں حجرے تعمیر کئے جاتے ہیں؟ اور کیا انہی نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے عورتوں کو مزاروں پر کثرت سے آنے کی ترغیب دی جاتی ہے؟
[3] ملفوظات احمد رضا 275،276۔