کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 242
تھے وہ کہاں گئے؟"
کسی نے کہاں، حضور وہ تو اس مشکل میں ہیں۔ آپ تشریف لے گئے اور شیر کا کان پکڑ کر طمانچہ مارا۔ اس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ آپ نے اس طرف مارا، اس نے اس طرف منہ پھیر لیا۔
فرمایا، ہم نے کہا تھا ہمارے مہمانوں کو نہ ستانا۔ جلا چلا جا! شیر اٹھ کر چلا گیا۔ پھر ان صاحبوں سے فرمایا، تم نے زبانیں سیدھی کی ہیں اور ہم نے دل سیدھا کیا۔ یہ ان کے خطرے کا جواب تھا! "[1]
کچھ ایسی حکایتیں بھی ہیں، جنہیں سن کر ہنسی کے ساتھ بیک وقت رونا بھی آتا ہے۔ ان میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ ارشاد کرتے ہیں :
"سیدی احمد سجلماسی کی دو بیویاں تھیں۔ سیدی عبدالعزیز دباغ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"رات کو تم نے ایک بیوی کے جاگتے دوسری سے ہمبستری کی، یہ نہیں چاہئے۔ عرض کیا، حضور ! وہ اس وقت سوتی تھی۔
فرمایا:
سوتی نہ تھی، سوتے میں جان ڈال لی تھی (یعنی جھوٹ موٹ سوئی ہوئی تھی) عرض کیا: حضور کو کس طرح علم ہوا؟ فرمایا، جہاں وہ سو رہی تھی کوئی اور پلنگ بھی تھا؟ عرض کیا، ہاں ایک پلنگ خالی تھا!
فرمایا اس پر میں تھا۔ "[2]
اس طرح کی خرافات نقل کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے تو انہیں کتاب و سنت کے مقابلے میں معاذ اللہ دلائل وبراہین کی حیثیت دے رکھی ہے۔
اسی طرح کی غلیظ، نجس اور جنسی حکایتوں کا نام انہوں نے دین و شریعت رکھ لیا
[1] حکایات رضویہ ص 110۔
[2] حکایات رضویہ از برکاتی قادری ص 55۔