کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 241
"ایک شخص سیدنا بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ پنجوں کے بل گھٹنے ٹیکے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون رواں ہے۔ عرض کی: "حضرت! کیا حال ہے؟" فرمایا!"میں ایک قدم میں یہاں سے عرش تک گیا۔ عرش کو دیکھا کہ رب عزوجل کی طلب میں پیاسے بھیڑیے کی کی طرح منہ کھولے ہوئے ہے۔ "بانگے بر عرش کہ ایں چہ ماجرا ست" ہمیں نشان دیتے ہیں کہ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى العَرْشِ اسْتَوَیٰ﴾ کہ رحمان عرش پر مستوی ہے۔ میں رحمان کی تلاش میں تجھ تک آیا، تیرا حال یہ پایا؟" عرش نے جواب دیا: مجھے ارشاد کرتے ہیں کہ اے عرش! اگر ہمیں ڈھونڈنا چاہتے ہو تو بایزید کے دل میں تلاش کرو۔ "[1] بریلوی مکتب فکر کے نزدیک اولیاء کرام سے جنگل کے جانور بھی خوف کھاتے ہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اس کی دلیل کے لیے جناب احمد رضا جس حکایت کی طرف رخ کرتے ہیں، وہ یہ ہے : "ایک صاحب اولیائے کرام میں سے تھے۔ ان کی خدمت میں دو عالم حاضر ہوئے۔ آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ تجوید کے بعض قواعد مستحبہ ادا نہ ہوئے۔ ان کے دل میں خطرہ گزرا کہ اچھے ولی ہیں، جن کو تجوید بھی نہیں آتی۔ اس وقت تو حضرت نے کچھ نہ فرمایا۔ مکان کے سامنے ایک نہر جاری تھی۔ یہ دونوں صاحبان نہانے کے واسطے وہاں گئے کپڑے اتار کر کنارے پر رکھ دیے اور نہانے لگے۔ اتنے میں ایک نہایت ہیبت ناک شیر آیا اور سب کپڑے جمع کر کے ان پر بیٹھ گیا۔ یہ صاحب ذرا ذرا سی لنگوٹیاں باندھے ہوئے تھے۔ اب نکلیں تو کیسے؟ جب بہت دیر ہو گئی، حضرت نے فرمایا کہ "بھائیوں ہمارے دو مہمان سویرے آئے
[1] حکایات رضویہ ترتیب خلیل احمد برکاتی ص 181، 182۔