کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 240
ایک فقیر بھیک مانگنے والا ایک دکان پر کھڑا کہہ رہا تھا، ایک روپیہ دے۔ وہ نہ دیتا تھا۔ فقیر نے کہا:
روپیہ دیتا ہے تو دے ورنہ تیری ساری دکان الٹ دوں گا۔ اس تھوڑی دیر میں بہت لوگ جمع ہو گئے۔ اتفاقاً ایک صاحب دل کا گزر ہوا، جس کے سب معتقد تھے۔ انہوں نے دکاندار سے فرمایا، جلد روپیہ اسے دے، ورنہ دکان الٹ جائے گی۔
لوگوں نے عرض کی، حضرت! یہ بے شرع جاہل کیا کر سکتا ہے؟
فرمایا: میں نے اس فقیر کے باطن پر نظر ڈالی کہ کچھ ہے بھی؟ معلوم ہوا بالکل خالی ہے۔ پھر اس کے شیخ کو دیکھا، اسے بھی خالی پایا۔ اس کے شیخ کے شیخ کو دیکھا، انہیں اہل اللہ سے پایا اور دیکھا منتظر کھڑے ہیں کہ کب اس کی زبان سے نکلے اور میں دکان الٹ دوں۔ "[1]
اندازہ لگائیں۔ ایک مانگنے والا جاہل فقیر، نماز روزے کا تارک، بے شرع، نفع و نقصان پہنچانے اور تصرفات و اختیارات کا مالک ہے !
کس طرح سے یہ لوگ نجس، غلیظ، پاکی و پلیدی سے ناآشنا، مغلظات بکنے والے، ہاتھ میں کشکول گدائی لیے، گلے میں گھنگرو ڈالے اور میلا کچیلا لباس زیب تن کیے، لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کر کے پیٹ پوجا کرنے والے جاہل لوگوں کو عام نظروں میں مقدس، پاکباز، بزرگان دین اور تصرفات و اختیارات کی مالک ہستیاں ظاہر کر رہے ہیں اور دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو مسخ کر رہے ہیں۔ یہی وہ تعلیمات ہیں، جن پر اس مذہب کی اساس و بنیاد ہے۔
قرآن و سنت میں تو ان افکار و نظریات کا کوئی وجود نہیں۔ انہوں نے خود ہی عقائد وضع کیے اور پھر ان کے دلائل کے لیے اس طرح کی من گھڑت حکایات کا سہارا لیا۔
اولیاء کرام کی قدرت و طاقت کو بیان کرنے کے لیے بریلوی حضرات ایک اور عجیب وغریب روایت کا سہارا لیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
[1] ملفوطات مجددماتہ حاضرہ ترتیب مصطفی رضا 189۔