کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 239
اب ان اقوال و عقائد کی دلیل قرآن کریم کی کوئی آیت یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نہیں، بلکہ ایک حکایت ہے جسے جناب احمد رضا خاں نے اپنے ایک رسالے میں نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
ایک دن حضرت سیدی مدین بن احمد اشمونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو فرماتے وقت ایک کھڑاؤں بلاد مشرق کی طرف پھینکی۔ سال بھر کے بعد ایک شخص حاضر ہوئے اور وہ کھڑاؤں ان کے پاس تھی۔ انہوں نے حال عرض کیا کہ جنگ میں ایک بدصورت [1]نے ان کی صاحبزادی پر دست درازی کرنی چاہی، لڑکی کو اس وقت اپنے باپ کے پیرومرشد حضرت سیدی مدین کا نام معلوم نہ تھا یوں ندا کی :
﴿ یا شیخ ابی لاحظنی﴾
"اے میرے باپ کے پیرومرشد مجھے بچایئے !"
یہ ندا کرتے ہی کھڑاؤں آئی، لڑکی نے نجات پائی۔ وہ کھڑاؤں ان کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ "[2]
اس سے ملتی جلتی ایک اور حکایت نقل کرتے ہیں :
"سیدی محمد شمس الدین محمد حنفی کے ایک مرید کو دوران سفر چوروں نے لوٹنا چاہا۔ ایک چور اس کے سینے پر بیٹھ گیا، اس نے پکارا:
﴿ یا سیدی محمد حنفی! خاطر معی﴾
یعنی "اے میرے آقا مجھے بچائیے۔ "
اتنا کہنا تھا کہ ایک کھڑاؤں آئی اور اس کے سینے پر لگی۔ وہ غش کھا کر الٹ گیا۔ "[3]
ایک اور مزیدار حکایت ملاحظہ ہو:
[1] یعنی اگر بدصورت نہ ہوتا تو کوئی حرج نہ تھا۔
[2] انوار الانتباہ جلد 1 ص 182۔
[3] ایضاًص 181۔