کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 238
"جسے رب کریم ہدایت کی روشنی عطا نہ کرے، اسے روشنی نہیں مل سکتی!" کتاب و سنت کی پیروی میں ہی امت کے لیے بہتری ہے۔ اگر ہم اس سے اعراض کریں گے تو ہمارا مقدر سوائے خرافات و توہمات کے کچھ نہ ہو گا۔ مسلمان امت کے لیے قرآن و سنت کے علاوہ کوئی تیسری چیز دلیل نہیں ہو سکتی۔ اگر قصے کہانیوں کو بھی دلائل کی حیثیت دے دی جائے تو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی۔ مسلمان صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث پر ہی متحد ہو سکتے ہیں۔ افسانوں اور خودساختہ روایات سے حق کو باطل اور باطل کو حق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج ہمارے دور میں اگر ہندوؤں کی نقل میں گھڑی ہوئی حکایتوں کو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کر لیا جائے تو بہت سے غیر اسلامی عقائد اسی وقت ختم ہو سکتے ہیں اور اتحاد کی بھی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ بریلوی حضرات نے بہت سی حکایتوں کو سند کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہم ذیل میں ان کی بے شمار حکایتوں میں سے چند ایک کو نقل کرتے ہیں۔ جناب بریلوی کا عقیدہ ہے کہ بزرگان دین اپنے مریدوں کی پریشانیاں دور کرتے، غیب کا علم رکھتے اور بہت دور سے اپنے مریدوں کی پکار سن کر ان کی فریاد رسی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : ’’سیدی موسیٰ ابو عمران رحمہ اللہ علیہ کا مرید جہاں کہیں سے بھی انہیں پکارتا جواب دیتے، اگرچہ سال بھر کی راہ پر ہوتا یا اس سے زائد۔‘‘ [1] مزید: "حضرت محمد فرغل فرمایا کرتے تھے میں ان میں سے ہوں جو اپنی قبروں میں تصرف فرماتے ہیں۔ جسے کوئی حاجت ہو میرے پاس چہرے کے سامنے حاضر ہو، مجھ سے اپنی حاجت کہے میں پوری فرمادوں گا۔ "[2]
[1] انوارالانتباہ فی حل نداء یا رسول اللہ درج شدہ مجموعہ رسائل رضویہ از بریلوی جلد1 ص 182۔ [2] ایضاً۔