کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 235
لیکن
"جس نے عالم کو عویلم کہا وہ کافر ہو گیا۔ "[1]
اور نہایت تعجب کی بات ہے کہ اس قدر تکفیری فتووں کے باوجود بریلوی اعلیٰ حضرت کہا کرتے تھے :
"اگر کسی کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں، اور ایک اسلام کا، تو واجب ہے کہ کلام کو احتمال اسلام پر محمول کیا جائے۔ "[2]
مزید:
"کسی مسلمان کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہو، تو کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آتا ہے اور کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے۔؟[3]
اور اس سے بھی زیادہ تعجب اور تضحیک کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت تکفیر مسلم میں بہت محتاط تھے اور اس مسئلے میں جلد بازی سے کام نہ لیتے تھے۔ "[4]
ایک اور صاحب لکھتے ہیں :
"وہ تکفیر مسلم میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ "[5]
جناب بریلوی خودد اپنے بارے میں لکھتے ہیں :
"یہ حسن احتیاط اللہ عزوجل نے ہمیں عطا فرمایا۔ ہم لاالٰہ الااللہ کہنے والے کو حتی الامکان کفر سے بچاتے ہیں۔ [6]
[1] ایضاً ص119
[2] فتاویٰ رضویہ 6 ص 114
[3] بالغ النور درج در فتاویٰ رضویہ ص 11
[4] انوار رضاص 291
[5] فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں از مسعود احمد بریلوی ص 44
[6] فتاویٰ رضویہ ج 6 ص 251