کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 229
کے اخراج کی ہر ممکن سعی کرنا اس کا فرض ہے۔ اور یہ بھی ہر ذی عقل پر واضح ہے کہ اگر حجاج نہ جائیں تو اسے تارے نظر آ جائیں۔ نجدی سخت نقصان عظیم اٹھائیں۔ ان کے پاؤں اکھڑ جائیں۔ آپ کے ہاتھ میں اور کیا ہے؟ یہی ایک تدبیر ہے جو ان شاء اللہ کارگر ہو گی! "[1]
مزید:
"اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ جب تم پر حج فرض نہ تھا تم نے وہاں جا کر ہمارے اور ہمارے محبوبوں کے دشمنوں کو کیوں مدد پہنچائی؟۔۔۔۔۔۔ جب تمہیں التواء و تاخیر کی اجازت تھی اور یہ حکم ہمارے ناچیز بندے اور تمہارے خادم مصطفے ٰ رضا نے تم تک پہنچا دیا تھا، پھر بھی تم نہ مانے اور تم نے ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں کو اپنے مال لٹوا کر ہمارے مقدس شہروں پر ان کا نجس قبضہ اور بڑھا دیا۔ "[2]
یہ ہیں بریلوی مکتب فکر کے اکابرین۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف جہاد کے ساقط ہونے کا فتویٰ دیا تھا، ان کے اکابرین نے انگریزی استعمار کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ[3] حج کے ساقط ہونے کا فتویٰ بھی دے دیا۔ [4]
دہلی کے ایک بریلوی عالم اس فتوے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"حج کے ملتوی ہونے سے نجدیہ کے ناپاک قدم ان شاء اللہ حرمین طیب و طاہر ہو جائیں گے۔ "[5]
ایک اور صاحب فرماتے ہیں :
"جب تک نجدی مسلط ہیں، اس وقت تک حج کے لیے سفر کرنا اپنی دولت کو ضائع کرنے کے برابر ہے۔ "
[1] تنویر الحجۃ لمن یجوز التواء الحجۃ ص 24
[2] ایضاً ص 65
[3] ملاحظہ ہو باب اول
[4] تنویر الحجہ ص 31
[5] ایضاً ص 32