کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 222
بریلوی حضرات کے نزدیک وہابیوں کو "مسلمانوں کی مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ خاں صاحب کے ایک ساتھی نعیم مراد آبادی فرماتے ہیں: "مسلمان وہابیہ غیر مقلدین کو اپنی مسجد میں نہ آنے دیں، وہ نہ مانیں تو قانونی طور پر انہیں رکوا دیں۔ ان کا مسجد میں آنا فتنہ کا باعث ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی مسجد میں وہابی و غیر مقلد کو کوئی حق نہیں۔ "[1] بریلوی حضرات نے وہابیوں کو مساجد سے نکالنے کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی ہے ﴿ إِخْرَاجُّ الْوَهَابِيِّيْنَ عَنِ الْمَسَاجِدِ﴾ یعنی "وہابیوں کو مساجد سے نکالنے کا حکم۔ " آج بھی کچھ ایسی مساجد (مثلاً بیگم شاہی مسجد اندرون مستی دروازہ لاہور) موجود ہیں جن کے دروازوں پر لکھا ہوا ہے کہ : "اس مسجد میں وہابیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ " خود میں نے لاہور میں دو ایسی مساجد دیکھی ہیں، جہاں یہ عبارت ابھی تک درج ہے ! جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی لکھتے ہیں : "وہابیوں کے پیچھے نماز ادا کرنا باطل محض ہے۔ "[2] نیز: "اقتدار احمد گجراتی کا بھی یہی فتویٰ ہے ! "[3] جناب بریلوی کا ارشاد ہے : "وہابی نے نماز جنازہ پڑھائی تو گویا مسلمان بغیر جنازے کے دفن کیا گیا۔ "[4] ان سے پوچھا گیا کہ اگر وہابی مر جائے تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے، اور جو پڑھے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
[1] مجموعہ فتاویٰ نعیم الدین مراد آبادی ص 64۔ [2] بالغ النور درج شدہ فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 143 ایضاً بریق المنار در فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 218 [3] فتاویٰ نعیمیہ جلد1 ص 104۔ [4] فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 12۔