کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 21
سے علم ہوتا تو وہ یقیناً اپنے موقف کو تبدیل کر لیتے۔ لیکن ان کا خیال اس کے برعکس تھا! اس فرقے کے پیروکار ایک طرف تو اس قدر افراط سے کام لیتے ہیں کہ ان کا اولیائے کرام اور نیک لوگوں کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدائی اختیارات کے مالک اور نفع و نقصان پر قدرت رکھنے والے ہیں، نیز دنیا و آخرت کے تمام خزانے انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اور دوسری طرف تفریط کا شکار ہوتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص اپنی زندگی میں نماز روزے کا تارک رہا ہو، اس کے مرنے کے بعد اس کے اعزاء و اقارب اس کی نمازوں، روزوں کا فدیہ دے کر اور "حیلہ اسقاط" پر عمل کر کے گناہ معاف کروا کے اسے جنت میں داخل کروا سکتے ہیں۔ اس قسم کے عقائد کا دور جاہلیت میں بھی وجود نہ تھا۔ بریلوی حضرات نے اپنے سوا تمام پر کفار و مرتدین ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے فقہی بھائی دیوبندیوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ اور ان کے نزدیک ہر وہ شخص کافر و مرتد ہے، جو ان کے امام و بانی کے نظریات سے متفق نہ ہو۔ مصنف رحمہ اللہ نے اس کتاب کے ایک مستقل باب میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ جناب احمد رضا صاحب نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ پر کفر کے فتوے لگائے ہیں۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگوں کو کتاب و سنت کی دعوت اتباع، نیز بدعات و خرافات سے اجتناب کی دعوت دیتے تھے، غیر اللہ کی عبادت ایسے شرکیہ عقائد سے بچنے کی تلقین فرماتے تھے اور پوری امت کو "لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کے پرچم تلے متحد کرنا چاہتے تھے۔ اس دور میں بھی اتحاد و اتفاق کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم ان تمام عقائد و نظریات کو ترک کر دیں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں نیز جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلافت راشدہ کے دور کے بعد کی ایجاد ہوں اور اسلامی قواعد و ضوابط سے متصادم ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا، نیک بندوں کو قادر مطلق سمجھنا ہا انہیں اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک کرنا، قبروں پر جا کر اپنی حاجات طلب کرنا اور اس قسم