کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 205
غزنوی،مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا محمد بشیر السّہسوانی، سید امیر حسین،مولانا امیر احمد الحسینی السّہسوانی، مولانا عبدالمنان وزیر آبادی، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا عبداللہ غازی پوری، سید مصطفیٰ ٹونکی، سید امیر علی ملیح آبادی، قاضی ملا محمدپشاوری، مولانا غلام رسول، مولانا شمس الحق ڈیانوی،شیخ عبداللہ المغربی، شیخ محمد بن ناصر بن المبارک النجدی اور شیخ سعد بن حمد بن عتیق ہیں۔
بہت سے علماء نے قصائد کی صورت میں آپ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا شمس الحق ڈیانوی نے غایۃ المقصود میں آپ کی سوانح عمری تحریر کی ہیں۔ اسی طرح مولانا فضل حسین مظفر پوری نے اپنی کتاب الحیاۃ بعد المماۃ میں آپ کے حالات زندگی مفصلاً بیان کیے ہیں۔
مجھے مولانا (عبدالحئی لکھنوی) سید صاحب رحمہ اللہ علیہ نے اپنے دست مبارک سے 1312ھ میں سند اجازت عطا فرمائی۔
آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات 10رجب 1320ھ بروز سوموار دہلی میں ہوئی نفعنا اللہ ببرکاتہ۔ آمین! "[1]
سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس نے بخاری و بغداد کی مجالس و محافل کی یاد تازہ کر دی۔ ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ علم حدیث کے حصول کے لیے آپ کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے۔
احمد رضا بریلوی نے علم و معرفت کے اس سیل رواں کو اپنی خرافات و بدعت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے آپ کو طعن و تشنیع اور تکفیر و تفسیق کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا:
"نذیر حسین دیلوی لا مذہباں، مجتہد نامقلداں، مخترع طرز نوی اور مبتدع آزاد روی ہے۔ "[2]
مزید لکھتے ہیں :
[1] نزہۃ الخواطر ص 500،501۔
[2] حاجز البحرین درج شدہ فتاویٰ رضویہ ج 2 ص 210۔