کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 20
دلیل سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ اس کتاب کے مصنف کی اس موضوع پر خدمات و مساعی قابل تحسین ہیں۔ جس طرح سے علمی، تحقیقی اور پرزور انداز کے ساتھ انہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، اس کی بنا پر تصنیفات تعلیمی درسگاہوں اور تحقیقی مراکز میں حوالے اور سند کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ مصنف (مرحوم) کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ انہیں اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری بہت سی زبانوں پر بھی دسترس حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے قادیانی، بابی، اسماعیلی، شیعہ، بہائی اور بریلوی فرقوں پر جو مواد پیش کیا ہے، وہ نہایت مستحسن اور اسلامی علمی و تحقیقی مکتوبات میں قابل قدر اضافہ ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد چند امور کی توضیح ضروری ہے : 1۔ اس فرقے کے مؤسس کے حالات زندگی سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی یہ تحریک علمی ہے، نہ فکری اور نہ ہی ادبی۔ ان کی ساری سرگرمیوں سے صرف انگریزی استعمار کو فائدہ پہنچا۔ اس تحریک کے علاوہ دوسری تحریک جو انگریز کے مفاد میں تھی، وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریک تھی۔ جناب احمد رضا بریلوی کا وہابیوں کی مخالفت کرنا، ان پر کفر کے فتوے لگانا، جہاد کو حرام قرار دینا، تحریک خلافت اور تحریک ترکِ موالات کی مخالفت کرنا، انگریز کے خلاف جدوجہد میں مصروف مسلم راہنماؤں کی تکفیر کرنا، اور اس قسم کی دوسری سرگرمیاں انگریزی استعمار کی خدمت اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے تھیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم اور قابل توجہ ہے کہ جناب احمد رضا صاحب کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ انگریز کی طرف سے اس قسم کی تحریکوں کے ساتھ تعاون کرنا بھی بعید از عقل نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس تحریک کے پیچھے استعمار کا خفیہ ہاتھ تھا، غیر منطقی بات نہیں ہے۔ اور اگر اس قسم کی تحریکوں کے بانیوں کو انگریزی حکومت کے زوال کا پہلے