کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 195
دیتے۔ تکفیر کا پرچم اٹھا کر مسلمانوں کو کافر قرار دینے کی ذمے داری انہوں نے خوب نبھائی۔ بہت سے ان کے ساتھی بھی پیدا ہو گئے جو اس سلسلے میں ان کا ساتھ دیتے رہے۔ جناب احمد رضا ہر اصلاحی تحریک کے مخالف رہے۔ بہت سے رسالے بھی ان کی تکفیر کو ثابت کرنے کے لیے تحریر کیے۔
حرمین شریفین کے علماء سے ان کے خلاف فتوے بھی لیے۔ استفتاء میں ایسے عقائد ان کی طرف منسوب کیے جن سے وہ بری الذمہ تھے۔ امام محمد بن قاسم نانوتوی، علامہ رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ وغیرہ کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے اور برملا ان کے کفر و ارتداد کے فتووں کا اظہار کرتے تھے۔ اپنی کتاب حسام الحرمین میں لکھتے ہیں، جو شخص ان کے کفر اور عذاب میں ذرا سا بھی شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ جناب احمد رضا ساری زندگی مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے میں مصروف و مشغول رہے۔ حتیٰ کہ کفر کے فتوے کو ایک معمولی امر تصور کیا جانے لگا اور ان کے اس عمل کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئے۔ "[1]
تکفیر مسلمین میں جناب بریلوی تنہا نہیں تھے، بلکہ ان کے متبعین نے بھی مسلمانوں کو کفار و مرتدین کے اس زمرے میں شامل کرنے کے لیے چوٹی کا زور صرف کیا۔ اہل حدیث کا اس کے علاوہ کیا جرم تھا کہ وہ عوام کو شرک و بدعت سے اجتناب کی تلقین کرتے اور اختلاف کے وقت کتاب و سنت ہی سے ہدایت و راہنمائی حاصل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ﴾[2] (النساء)
"اگر تمہارا آپس میں اختلاف ہو جائے تو اس کے حل کے لیے اللہ اور اس کے
[1] نزہۃ الخواطر از امام عبدالحی لکھنوی ج8 ص39۔
[2] سورۃ النساء آیت 59