کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 192
کی قوت و طاقت میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ دلوں کے راز جاننے والے اور موت و حیات کے مالک ہیں۔ یہ تمام اختیارات جب بزرگان دین کے پاس ہیں تو کسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکارے، مساجد کا رخ کرے، رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر وہ اپنے رب کے حضور گڑگڑائے؟ وہ کسی پیر کے نام کی نذر و نیاز دے گا، آپ کو اس کا مرید بنا لے گا، وہ خود ہی اس کی نگہبانی کرے گا، مصائب میں اس کے کام آئے گا اور قیامت کے روز اسے جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دے گا۔ ظاہر ہے جس کی عقل سلامت ہو اور اسلام کی تعلیمات سے ادنیٰ سی بھی واقفیت بھی رکھتا ہو، وہ تو ان عقائد کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ وہ تو رب کائنات کو اپنا خالق و مالک و رازق اور داتا و حاجت روا مانے گا اور مخلوق کو اس کا محتاج اور اس کے بندے تصور کرے گا۔ وہ انسان ہو کر انسان کی غلامی اختیار نہیں کر سکتا۔ بس یہی قصور تھا اہل حدیث کا!۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ہندوؤانہ و مشرکانہ عقائد کو نہ مانا چنانچہ وہ جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور ان کے پیروکاروں کے تکفیری فتووں کا نشانہ بن گئے۔ اہل حدیث نے کہا ہمیں جناب بریلوی کی اطاعت کا نہیں، بلکہ کتاب و سنت کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ انہیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد عزیز تھا: ﴿ تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابُ اللّٰهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِهِ ﴾ [1] "میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! یہی ایک جرم تھا جو انہیں مقتل لے گیا ان پر فتووں کی بوچھاڑ ہوئی اور وہ کافر، زندیق، ملحد اور مرتد ٹھہرے !
[1] مشکوٰۃ شریف۔