کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 188
سخاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کر کے لکھا ہے :
"اس روایت کو کسی صوفی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں جن راویوں کے اسماء ہیں، وہ محدثین کے نزدیک مجہول او رغیر معروف ہیں۔ یعنی خود ساختہ سند ہے۔ اور پھر خضر علیہ السلام سے کس نے سنا ہے؟ اس کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ "[1]
یعنی امام سخاوی جس روایت کو صوفیہ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اس پر تنقید کر رہے ہیں اور اسے موضوع روایت قرار دے رہے ہیں، جناب احمد رضا مکمل علمی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک غیر اسلامی بدعت کو رواج دینے کے لئے اس سے استدلال کر رہے ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں " وہ تمام روایات، جن میں انگوٹھوں کو چومنے کا ذکر ہے، وہ موضوع ومن گھڑت ہیں۔ "[2]
اسی طرح امام سخاوی رحمہ اللہ، ملا علی قاری، محمد طاہر الفتنی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان تمام روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔ [3]
لیکن جناب احمد رضا صاحب کو اصرار ہے کہ "انگوٹھے چومنے کا انکار اجماع امت (بریلوی امت) کے منافی ہے۔ "[4]
مزید:"اسے وہی شخص ناجائز کہے گا، جو سید الانام صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے جلتا ہے۔ "[5]
بریلوی خرافات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں "جس نے ﴿ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ ﴾ یہ ساری دعاء لکھ کر میت کے کفن میں رکھ دی، وہ قبر کی تنگیوں
[1] المقاصد الحسنہ للسخاوی۔
[2] تیسیرالمقال از امام سیوطی۔
[3] ملاحظہ ہو تذکرۃ الموضوعات للفتنی، موضوعات ملا علی قاری، الفوائد المجموعتہ للامام الشوکانی۔
[4] منیرالعین در فتاویٰ رضویہ جلد 2 ص 488۔
[5] ایضاً ص 496۔