کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 185
آتے ہیں :
"زائر کو چاہیے کہ وہ کچھ نذر کرے، تاکہ اس سے مسلمانوں کی اعانت ہو۔ اس طرح زیارت کرنے والے اور کرانے والے دونوں کو ثواب ہو گا۔ ایک نے سعادت و برکت دے کر ان کی مدد کی اور دوسرے نے متاع قلیل سے فائدہ پہنچایا۔ حدیث میں ہے " تم میں جس سے ہو سکے کہ اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچائے تو اسے چاہئے کہ نفع پہنچائے (طرز استدلال ملاحظہ فرمائیں ) حدیث میں ہے :
"اللہ اپنے بندوں کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہے۔ خصوصاً جب یہ تبرکات والے حضرات سادات ہوں تو ان کی خدمت اعلیٰ درجے کی برکت و سعادت ہے۔ [1]"
یہ ہے بریلوی دین و شریعت اور یہ ہیں اس کے بنیادی اصول و ضوابط! عوام کو بے وقوف بنا کر کس طرح یہ لوگ اپنا کاروبار چمکانا چاہتے اور اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔
کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلام تصاویر اور مجسموں کی تعظیم کا حکم دے؟ انہیں بوسہ دینے اور ہاتھ سے چھونے کو باعث برکت بتائے اور پھر اس پر چڑھاوے چڑھانے کی ترغیب دے؟
حاشا وکلّا!
دین کو نفع بخش تجارت بنا لینے والے بعض بریلوی ملاؤں نے عوامی سرمائے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے بعض ایسی بدعات ایجاد کی ہیں، جو کھلم کھلا کتاب و سنت کے خلاف اعلان بغاوت ہیں۔ بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے کہ اگر کسی نے ساری زندگی نماز نہ پڑھی ہو روزے نہ رکھے ہوں، مرنے کے بعد دنیوی مال و متاع خرچ کر کے اسے بخشوایا جا سکتا ہے۔ جسے یہ لوگ حیلہ اسقاط کا نام دیتے ہیں۔ اس کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں اور بریلوی ذہنیت کی داد دیں :
"میت کی عمر کا اندازہ لگا کر مرد کی عمر سے بارہ سال اور عورت کی عمر سے نو سال
[1] بدار الانوار در مجموعہ رسائل ص 50 ومابعد۔