کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 184
نیز:
"روضہ منورہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی نقل صحیح بلاشبہ معظمات دینیہ سے ہے۔ اس کی تعظیم و تکریم بروجہ شرعی ہر مسلمان صحیح الایمان کا مقتضائے ایمان ہے۔ "[1]
ان چیزوں کی زیارت کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور ذہن میں لائیں اور درود شریف کی کثرت کریں۔ "[2]
ایک جگہ لکھتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نعل مبارک کے نقشہ کو مس کرنے والے کو قیامت میں خیر کثیر ملے گی اور دنیا میں یقیناً نہایت اچھے عیش و عشرت اور عزت و سرور میں رہے گا۔ اسے قیامت کے روز کامیابی کی غرض سے بوسہ دینا چاہئے، جو اس نقشے پر اپنے رخسار رگڑے اس کے لیے بہت عجیب برکتیں ہیں۔ "[3]
اندازہ لگائیں، بریلوی حضرات کی ان حرکات اور بت پرستی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اپنے ہاتھوں سے ایک تصویر بناتے ہیں اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور اپنے ذہن میں لا کر اسے چومتے ہیں، اپنی آنکھوں سے لگاتے اور اپنے گالوں پر رگڑتے ہیں اور پھر برکات کے حصول کی امید کرتے ہیں۔
ایک طرف تو تصویر اور مجسمے کی اس قدر تعظیم کرتے، اور دوسری طرف اللہ رب العزت کی شان میں اس قدر گستاخی اور بے ادبی کہ کہتے ہیں :
"نعل شریف (جوتے کا مجسمہ) پر بسم اللہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ "[4]
جناب احمد رضا صاحب ان مشرکانہ رسموں کی اصل غرض وغایت کی طرف
[1] بدرالانوار ص 53۔
[2] ایضاًص 56۔
[3] مجموعہ رسائل از احمد رضاص 144۔
[4] ایضاً ص 304۔