کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 182
"اس کے لیے کسی سند کی حاجت نہیں، بلکہ جو چیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پاک سے مشہور ہو، اس کی تعظیم شعائر دین میں سے ہے۔ "[1]
تعظیم کا طریقہ کیا ہے؟ جناب احمد رضا بیان کرتے ہیں :
"در ودیوار اور تبرکات کو مس کرنا اور بوسہ دینا اگرچہ ان عمارتوں کا زمانہ اقدس میں وجود ہی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اس کی دلیل؟ مجنوں کا قول۔۔۔۔۔ کیا خوب کسی نے کہا ہے۔
امر علی الدیار دیار لیلیٰ
اقبل ذا الجدار وذا الجدار
وماحب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا
"میں لیلیٰ کے شہروں پر گزرتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو۔ اور یہ شہر کی محبت کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ تو شہر والوں کی محبت ہے۔ "[2]
نیز:
حتیٰ کہ بزرگوں کی قبر پر جانے کے وقت دروازے کی چوکھٹ چومنا بھی جائز ہے۔ "[3]
بریلوی قوم کے نزدیک مدینہ منورہ اور بزرگوں کی قبروں کو چومنا ہی نہیں، بلکہ مزاروں وغیرہ کی تصویروں کو بھی چومنا ضروری ہے۔[4] بریلوی صاحب ارشاد کرتے ہیں :
"علمائے دین نعل مطہر و روضہ حضور سید البشر علیہ افضل الصلوۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پر بنانے اور انہیں بوسہ دینے، آنکھوں سے لگانے اور سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے۔ "[5]
[1] ایضاً الفصل الرابع ص 43۔
[2] رسالۃ ابرالمقال درج در مجموعہ رسائل جلد 2 ص 141۔
[3] ایضاً ص 159۔
[4] ایضاً ص 144۔
[5] ابرالمقال فی قبلۃ الاجلال از بریلوی ص 143۔