کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 181
تک پہنچتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اجرت دے کر اس سے نوافل وغیرہ پڑھوائے اور ان کا ثواب میت کو ہبہ کر دے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ وصیت کر جائے کہ اس کے مال کا کچھ حصہ قرآن مجید کی تلاوت کر کے اسے ہبہ کرنے والوں کو دیا جائے، تو ایسی وصیت باطل ہے۔ "[1] بہرحال اس بدعت کا ذاتی خواہشات کی تکمیل سے تو تعلق ہو سکتا ہے، دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ! بریلوی حضرات نے مال و دولت جمع کرنے کے لیے "تبرکات" کی بدعت بھی ایجاد کی ہے، تاکہ جبہ و دستار کی زیارت کراکے دنیوی دولت کو سمیٹا جائے۔ بریلوی اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں : "اولیاء کے تبرکات شعائر اللہ میں سے ہیں۔ ان کی تعظیم ضروری ہے۔ "[2] مزید: جو شخص تبرکات شریفہ کا منکر ہو، وہ قرآن و حدیث کا منکر اور سخت جاہل، خاسر اور گمراہ و فاجر ہے۔ "[3] نیز: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ جو چیز حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے پہچانی جاتی ہے، اس کی تعظیم کی جائے۔ "[4] چنانچہ کسی بھی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دو اور پھر ا س کی زیارت کروا کے صدقے اور نذرانے جمع کرنے شروع کر دو۔ کوئی ضرورت نہیں تحقیق کی کہ اس "تبرک" کا واقعی آپ سے تعلق ہے بھی یا نہیں؟ جناب بریلوی تصریح فرماتے ہیں :
[1] شرح العقیدہ الطحاویہ ص 517۔ [2] مقدمہ رسالہ بدرالانوار مجموعہ رسائل اعلیٰ حضرت جلد 2 ص 8۔ [3] درا لانوار احمد رضا ص 12۔ [4] ایضاً ص 21۔