کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 178
جہاں تک قل، ساتویں، دسویں اور چالیسویں وغیرہ کا تعلق ہے، یہ سب خود ساختہ بدعات ہیں۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا ثبوت ملتا ہے، نہ اصحاب رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور نہ ہی فقہ حنفی سے۔ حقیقت میں یہ لوگ حنفی نہیں، کیونکہ یہ فقہ حنفی کی پابندی نہیں کرتے۔ ان کی الگ اپنی فقہ ہے، جس پر یہ عمل پیرا ہیں۔
فقہ حنفی کے امام ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"ہمارے مذہب میں علماء کا اتفاق ہے کہ تیجا اور ساتواں وغیرہ جائز نہیں۔ "[1]
ابن بزار حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"تیجا اور ساتواں مکروہ ہے۔ اسی طرح مخصوص دنوں میں ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا اور ختم وغیرہ بھی مکروہ ہیں۔ "[2]
مگر بریلوی حضرات کسی شخص کے مر جانے کے بعد اس کے ورثاء پر قل وغیرہ کرنا فرض قرار دیتے ہیں اور ایصال ثواب کے بہانے شکم پروری کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
گیارہویں کے متعلق بریلوی قوم کا اعتقاد ہے :
"گیارہویں تاریخ کو کچھ مقررہ پیسوں پر فاتحہ کی پابندی کی جائے تو گھر میں بہت برکت رہتی ہے۔ کتاب "یازدہ مجالس" میں لکھا ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی بارہویں یعنی 12 تاریخ کے میلاد کے بڑے پابند تھے۔ ایک بار خواب میں سرکار نے فرمایا کہ عبدالقادر! تم نے بارہویں سے ہم کو یاد کیا، ہم تم کو گیارہویں دیتے ہیں۔ یعنی لوگ گیارہویں سے تم کو یاد کیا کریں گے۔ یہ سرکاری عطیہ ہے۔ "[3]
یہ ہے گیارہویں اور "یازدہ مجالس" سے اس کی عظیم الشان دلیل۔ نامعلوم کون کون سے دن انہوں نے حصول برکات کے لیے وضع کر رکھے ہیں۔ بریلوی مذہب
[1] مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 5 ص 482۔
[2] فتاویٰ بزازیہ جلد 4ص 81۔
[3] جاء الحق جلد1 ص 270۔