کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 176
نیز: "وہ ہر سال تقریباً تین لاکھ روپے اس بدعت پر خرچ کیا کرتا تھا۔ "[1] نیز: اس کے دور میں ایک بدعتی عالم عمر بن دحیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ "[2] البدایہ والنہایہ میں عمر بن دحیہ کے متعلق لکھا ہے کہ: "یہ جھوٹا شخص تھا۔ لوگوں نے اس کی روایت پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی بہت زیادہ تذلیل کی تھی۔ "[3] امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے متعلق فرمایا ہے : "یہ بہت جھوٹا شخص تھا۔ احادیث خود وضع کر کے انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دیتا۔ سلف صالحین کے خلاف بد زبانی کیا کرتا تھا۔ ابوالعلاء اصبہانی نے اس کے متعلق ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ: " وہ ایک دن میرے والد کے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں ایک مصلیٰ بھی تھا۔ اس نے اسے چوما اور آنکھوں سے لگایا اور کہا کہ یہ مصلیٰ بہت بابرکت ہے۔ میں نے اس پر کئی ہزار نوافل ادا کیے ہیں اور بیت اللہ شریف میں اس پر بیٹھ کر قرآن مجید ختم کیا ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اسی روز ایک تاجر میرے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا، آپ کے مہمان نے آج مجھ سے بہت مہنگا جائے نماز (مصلیٰ) خریدا ہے۔ میرے والد نے وہ مصلیٰ جو مہمان عمر بن دحیہ کے پاس تھا، اسے دکھلایا تو تاجر نے کہا کہ یہی وہ جائے نماز ہے جو اس نے مجھ سے آج خریدا ہے۔ اس پر میرے والد نے اسے بہت شرمندہ کیا اور گھر سے نکال دیا۔ [4]
[1] دول الاسلام از امام ذہبی رحمہ اللہ جلد 2 ص 102۔ [2] البدایہ والنہایہ ازامام ابن کثیر جلد13ص 144۔ [3] ایضاً ص 145۔ [4] لسان المیزان از امام ابن حجر جلد 4 ص 296۔