کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 174
جناب بریلوی کہتے ہیں : "میلاد شریف میں رلا دینے والے قصے بیان کرنا ناجائز ہے۔ "[1] بریلوی قوم نے اکل و شرب کو دوام بخشنے کے لیے اس طرح کی بدعات جاری کی ہیں اور دین اسلام کو غیر شرعی رسوم و رواج کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقدس نام کو بھی استعمال کیا، تاکہ کھانے پینے کا بازار بخوبی گرم ہو سکے۔ حالانکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے : ﴿ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا فَهُوَ رَدٌّ﴾ [2] "جس نے دین کے معاملے میں کوئی نئی چیز ایجاد کی، اسے ردّ کر دیا جائے گا۔ " نیز: ﴿إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ،كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ﴾ [3] "دین میں نئی نئی رسموں سے بچو۔ ہر نئی رسم بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ " اور خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کسی عزیز کی عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد قل وغیرہ کروائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی وفات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موجودہ رسموں میں سے کوئی رسم ادا نہیں کی۔ اگر ان رسموں کا کوئی فائدہ ہوتا یا ایصال ثواب کا ذریعہ ہوتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور عمل فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ اگر کسی قبر پر عرس وغیرہ کرنا باعث ثواب اور حصول برکات کا سبب ہوتا تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کسی صورت میں بھی اس سے محروم نہ رہتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان سے زیادہ محبت کس کو ہو سکتی ہے؟ مگر ان میں سے کسی سے بھی اس قسم کے اعمال ثابت
[1] ایضاً ص 60۔ [2] متفق علیہ۔ [3] رواہ احمد وابوداؤد والترمذی وابن ماجہ۔