کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 170
"یہ سب باطل کام ہے۔ ان کاموں سے بچنا چاہیے۔ "[1]
نیز:
"چراغ جلانا اور چادریں چڑھانا حرام ہے۔ "[2]
علمائے احناف حضرت علی کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:
"وہ کسی ایسی قبر کے پاس سے گزرے جسے کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ دیا گیا تھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے منع فرما دیا۔ "[3]
ان ساری بدعات کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود نہیں تھا اور نہ ہی یہ قروں اولیٰ سے ثابت ہیں اگر اس میں کسی قسم کا کوئی دینی فائدہ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ وغیرہ سے اس کا عمل ثابت ہوتا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو دعاء فرمائی تھی :
﴿ اللّٰهُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَناً يُعْبَدُ﴾ [4]
یعنی" اے اللہ! میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا کہ اس کی پوجا شروع کر دی جائے۔ "
بریلوی حضرات نے عرسوں، محافل میلاد، فاتحہ کی نذر، قل، گیارہویں اور چالیسویں وغیرہ کی شکل میں بہت سی اس طرح کی بدعات ایجاد کیں، تاکہ وہ ان کے ذریعہ سے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کر سکیں۔ وہ لکھتے ہیں :
"اولیاء اللہ رحمت رب کے دروازے ہیں۔ رحمت دروازوں سے ملتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
﴿ هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ﴾
ثابت ہوا کہ زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کے پاس کھڑے ہو کر بچے کی
[1] فتاویٰ عزیزیہ ص9۔
[2] فتاویٰ شاہ رفیع الدین ص 14۔
[3] مطالب المومنین۔
[4] مشکوٰۃ المصابیح باب المساجد عن مالک فی موطا۔