کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 169
خود احمد یار نے فتاویٰ عالمگیری سے نقل کیا ہے کہ : "قبروں پر شمعیں روشن کرنا بدعت ہے۔ " اسی طرح فتاویٰ بزازیہ میں بھی ہے کہ "قبرستان میں چراغ لے جانا بدعت ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔ "[1] ابن عابدین فرماتے ہیں : "مزاروں پر تیل یا شمعوں وغیرہ کی نذر چڑھانا باطل ہے۔ "[2] علامہ حصکفی حنفی فرماتے ہیں : "وہ نذر و نیاز جو عوام کی طرف سے قبروں پر چڑھائی جاتی ہے، خواہ وہ نقدی کی صورت میں ہو یا تیل وغیرہ کی شکل میں، وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔"[3] فتاویٰ عالمگیری میں ہے : "قبروں پر روشنی کرنا جاہلیت کی رسموں میں سے ہے۔ "[4] علامہ آلوسی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "قبروں پر سے چراغوں اور شمعوں کو ہٹانا ضروری ہے۔ ایسی کوئی نذر جائز نہیں۔ "[5] اسی طرح: "چادر وغیرہ سے قبر کو ڈھانپنا بھی درست نہیں "[6]
[1] جاء الحق ص 302۔ [2] ردّ المختار از ابن عابدین شامی جلد2 ص 139۔ [3] ردّ المختار از حصکفی جلد2 ص 139۔ [4] فتاویٰ عالمگیری جلد 1 ص 178۔ [5] روح المعانی جلد 15 ص 219۔ [6] فتاویٰ مطالب المومنین۔