کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 168
ایک اور بریلوی عالم رقمطراز ہیں :
"اگر کسی ولی کی قبر ہو تو ان کی روح کی تعظیم کرنے اور لوگوں کو بتلانے کے لیے کہ ولی کی قبر ہے، تاکہ لوگ اس سے برکت حاصل کر لیں چراغ جلانا جائز ہے۔ "[1]
یہ تو ہیں بریلوی اکابرین کے فتوے مگر حدیث میں اس کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
﴿ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا المَسَاجِدَ وَالسُّرَجَ ﴾ [2]
یعنی"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کی زیارت کے لیے آنے والی عورتوں، قبروں پر سجدہ گاہ تعمیر کرنے والوں اور ان پر چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ "
ملّا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
یعنی " قبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت اس لیے آئی ہے کہ یہ مال کا ضیاع ہے۔ اور اس لیے کہ یہ جہنم کے آثار میں سے ہے۔ اور اس لیے آئی ہے کہ اس میں قبروں کی تعظیم ہے۔ "[3]
قاضی ابراہیم حنفی رحمہ اللہ قبر پرستوں کے اصول ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"آج بعض گمراہ لوگوں نے قبروں کا حج کرنا بھی شروع کر دیا ہے اور اس کے طریقے وضع کر لیے ہیں۔ اور دین و شریعت کے مخالف امور میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ قبروں اور مزاروں کے سامنے عاجزی و انکساری کا ظہار کرتے ہیں اور ان پر دیئے وغیرہ جلاتے ہیں۔ قبروں پر چادریں چڑھانا، ان پر دربان بٹھانا، انہیں چومنا اور ان کے پاس رزق و اولاد طلب کرنا، ان سب امور کا شریعت اسلامیہ میں کوئی جواز نہیں۔ "[4]
[1] جاء الحق از احمد یار گجراتیء ص 300۔
[2] رواہ ابوداؤد والترمذی والنسائی۔
[3] مرقاۃ از ملا علی قاری جلد 1 ص 470۔
[4] مجالس الابرار ص 118۔