کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 167
"وہ قبے جو قبروں پر تعمیر کئے گئے ہیں، انہیں گرانا فرض ہے۔۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معصیت اور نافرمانی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ اور وہ عمارت جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی معصیت پر تعمیر کی گئی ہو اسے گرانا مسجد ضرار کے گرانے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ "[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے : ﴿ لَعْنَ اللّٰهُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَىٰ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ ﴾ [2] "اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔ " یہ تو ہیں کتاب و سنت اور فقہ حنفیہ کی واضح نصوص۔۔۔۔ مگر بریلوی قوم کو اصرار ہے کہ قبروں کو پختہ کرنا اور ان پر قبے وغیرہ بنانا ضروری ہیں۔ جناب احمد رضا خاں بریلوی کہتے ہیں : "قبوں وغیرہ کی تعمیر اس لیے ضروری ہے تاکہ مزارات طیّبہ عام قبور سے ممتاز رہیں اور عوام کی نظر میں ہیبت و عظمت پیدا ہو۔ "[3] چادریں ڈالنا اور شمعیں جلانا یہ بھی جائز ہے تاکہ : عوام جس مزار پر کپڑے اور عمامے رکھیں، مزار ولی جان کر اس کی تحقیر سے باز رہیں۔ اور تاکہ زیارت کرنے والے غافلوں کے دلوں میں خشوع و ادب آئے اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ مزارات کے پاس اولیاء کرام کی روحیں حاضر ہوتی ہیں۔ "[4] مزید لکھتے ہیں : "شمعیں روشن کرنا قبر کی تعظیم کے لیے جائز ہے، تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ یہ بزرگ کی قبر ہے اور وہ اس سے تبرک حاصل کریں۔ "[5]
[1] مجالس الابرار از قاضی ابراہیم ص 129۔ [2] رواہ البخاری۔ [3] احکام شریعت للبریلوی ج1 ص 71۔ [4] اقیجاً ص 71۔ [5] بریق المنار بشموع المزار در فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 144۔