کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 166
"قبروں کا پختہ بنانا ممنوع ہے۔ "[1]
امام محمد بن الحسن سے پوچھا گیا کہ کیا قبروں کو پختہ بنانا مکروہ ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا"ہاں ! "[2]
امام سرخسی رحمہ اللہ المسبوط میں فرماتے ہیں :
"قبروں کو پختہ نہ بناؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ "[3]
قاضی خاں اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں :
"قبر کو پختہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی اس پر قبہ وغیرہ تعمیر کیا جائے، کیونکہ امام ابوحنیفہ سے اس کی نہی وارد ہوئی ہے۔ "[4]
امام کاسانی کا ارشاد ہے :
"قبر کو پختہ بنانا مکروہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ نے قبر پر قبہ وغیرہ بنانا مکروہ سمجھا ہے۔ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ البتہ قبر پر پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں، مگر امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ پانی چھڑکنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے قبر پختہ ہوتی ہے۔ "[5]
ملاحظہ ہو بحرالرائق،[6] بدائع الصنّائع[7] فتح القدیر[8]ردّ المختار علی درّ المختار[9]، فتاویٰ ہندیہ،[10] فتاویٰ بزازیہ[11] اور کنز الدّقائق[12] وغیرہ۔ قاضی ابراہیم حنفی فرماتے ہیں :
[1] کتاب الاثار از امام محمد۔
[2] کتاب الاصل جلد ا ص 422 از امام محمد۔
[3] المبسوط از امام سرخسی جلد 2 ص 62۔
[4] فتاویٰ قاضی خاں جلدا ص 194۔
[5] بدائع الصنائع از امام کاسانی جلد 1 ص 320۔
[6] جلد 2 ص 209۔
[7] جلد1ص 320۔
[8] جلدا ص 472۔
[9] جلد 1 ص 601۔
[10] جلد 1ص 661
[11] جلد 4 ص 81۔
[12] ص50۔