کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 159
"اور یقیناً اللہ نے تمہاری نصرت کی بدر میں، حالانکہ تم پست تھے۔ تو اللہ سے ڈرتے رہو، عجب کیا کہ شکر گزار بن جاؤ۔ " ﴿ اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃ الدُّنْیَا وَ ہُمْ بِالْعُدْوَۃ الْقُصْویٰ وَ الرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُم ﴾[1] (یہ وہ وقت تھا) جب تم (میدان جنگ) کے نزدیک والے کنارہ پر تھے اور وہ دور والے کنارہ پر، اور قافلہ تم سے نیچے کی (جانب) تھا۔ " ﴿ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃ ﴾ [2] "بے شک اللہ خوش ہوا ان مسلمانوں پر، جبکہ وہ آپ سے بیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے۔ " ﴿ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ امِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُئُوْسَکُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَ لا تَخَافُوْن﴾ [3] "تم لوگ مسجد الحرام میں ان شاء اللہ ضرور داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، سر منڈاتے ہوئے بال کتراتے ہوئے، اور تمہیں اندیشہ (کسی کا بھی) نہ ہو گا۔ " ان آیات سے ثابت ہوا کہ ایک ہی وقت میں بہت سے مقامات پہ موجود ہونے کا عقیدہ درست نہیں۔ قرآنی آیات کا مفہوم اس غیر اسلامی فلسفے سے متصادم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک ہی وجود رکھتے تھے۔ اور جب وہ مدینہ منورہ میں موجود ہوتے تھے تو بدر میں ان کا وجود نہ ہوتا تھا، ورنہ بدر کی طرف سفر کرنے کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ اسی طرح جب تک مکہ مکرمہ فتح نہیں ہوا تھا ان کا وجود مکہ مکرمہ میں نہیں تھا۔ ان آیات کریمہ کے ساتھ ساتھ حقائق و واقعات بھی اس عقیدے کی تردید کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب حجرہ مبارک میں تشریف فرما ہوتے تھے تو صحابہ کرام
[1] سورۃ الانفال : 42 [2] سورۃ الفتح آیت 18 [3] سورۃ الفتح آیت 27