کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 158
"یہ (قصہ) غیب کی خبروں میں سے ہے، جس کی ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ اور آپ ان کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جب انہوں نے اپنا ارادہ پختہ کر لیا تھا اور وہ چالیں چل رہے تھے۔ "
اللہ تعالیٰ حضور علیہ السلام کے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْریٰ بِعَبْدِہ لَیْلا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ ٰبرَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ من ٰایٰتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرْ ﴾[1]
"پاک ذات ہے وہ جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جن کے ارد گرد کو ہم نے بابرکت بنا رکھا ہے، تاکہ ان (بندہ) کو ہم بعض اپنے عجائب (قدرت) دکھائیں، بے شک سمیع و بصیر وہی اللہ ہے۔ "
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر حاضر و ناظر ہوتے تو مسجد اقصیٰ تک براق کے ذریعہ سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو پہلے ہی وہاں موجود تھے !
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰه اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰه مَعَنَا ﴾[2]
"اگر تم لوگ ان کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ) مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد تو(خود) اللہ کر چکا ہے، جبکہ ان کو کافروں نے وطن سے نکال دیا تھا جبکہ دو میں سے ایک وہ تھے اور دونوں غار میں (موجود) تھے، جبکہ وہ اپنے رفیق سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو! بے شک اللہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے۔ "
﴿ وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن ﴾ [3]
[1] سورۃ الاسراء : 1
[2] سورۃ التوبۃ : 40
[3] سورۃ آل عمران : 123