کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 149
از نو پیدا دانش از تو ہویدا عرش وکرسی از تو حوا از تو آدم صلی اللہ علیہ وسلم [1] تو گویا آدم و حوا، جن وانس، عرش و کرسی ہر چیز نور محمدی کا حصہ ہے۔ اس عقیدے میں باطنیت او ریونانی فلسفہ صاف طور پر مترشح ہے۔ جناب بریلوی فرماے ہیں : ’’فرشتے آپ ہی کے نور سے پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ نے ہر چیز میرے ہی نور سے پیدا فرمائی۔ ‘‘[2] مزید لکھتے ہیں : ’’مرتبہ ایجاد میں صرف ایک ذات مصطفیٰ ہے، باقی سب پر اس کے عکس کا فیض وجود مرتبہ کون و مکان میں نور احمد آفتاب ہےاور تمام عالم اس کے آئینے اور مرتبہ تکوین میں نور احمدی آفتاب اور سارا جہاں اس کے آبگینے۔ ‘‘[3] اس عبارت کا ایک ایک لفظ واضح کر رہا ہے کہ یہ عقیدہ یونانی فلسفے اور باطنیت سے ماخوذ ہے اور وحدۃ الوجود کی ایک صورت ہے۔ اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جناب بریلوی کی ایک اور عبارت سنئے : ’’عالم نو رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدائے وجود میں محتاج تھا کہ وہ نہ ہوتا تو کچھ نہ بنتا۔ یوں ہی ہر شئے اپنی بقا میں اس کی دست گرے۔ آج اس کا قدم درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعتاً فنائے محض ہو جائے۔ وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ ہو۔‘‘ [4] اندازہ فرمائیے اس قسم کے عقائد قرآنی تصورات سے کس قدر بعید ہیں؟ قرآن کریم کسی آیت میں بھی اس طرح کے باطنی تصورات اور فلسفیانہ افکار و نظریات کا وجود نہیں ہے۔۔۔ مگر اس قسم کے عقائد کو اگر نکال لیں، توبریلویت ’’دفعتاً فنائے محض‘‘ ہو جائے۔
[1] ديوان دیدار علی 41 [2] صلوۃ الصفا مندرجہ مجموعہ رسائل ج1 ص37 [3] ایضاً ص60 [4] ایضا