کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 147
آل، اصحاب اور اس کے چاندوں پر۔‘‘ [1] اس غیر منطقی اور بعید از فہم خطبے کے بعد انہوں نے ایک موضوع اور خود ساختہ روایت سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ حافظ عبد الرزاق کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ انہوں نے مصنف عبد الرزاق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی کہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے جابر، بےشک بالیقین اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اپنے قدرت الہٰی سے جہاں خدا نے چاہا، دورہ کرتارہا۔ اس وقت لوح و قلم، جنت و دوزخ،فرشتگان،آسمان،زمین،سورج، چاند، جن، آدمی کچھ نہ تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے فرمائے۔ پہلے حصے قلم، دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش بنایا،پھر چوتھے کے چار حصے کئے۔ [2] یہ موضوع حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’اس حدیث کو امت نے قبول کر لیا ہے۔ اور امت کا قبول کر لینا وہ شے عظیم ہے جس کے بعد کسی سند کی حاجت نہیں رہتی بلکہ سند ضعیف بھی ہو تو بھی حرج نہیں کرتی۔‘‘ [3] خان صاحب بریلوی اس امت سے کون سی امت مراد لے رہے ہیں ؟ اگر اس سے مراد خان صاحب جیسے اصحاب ضلال او رگمراہ لوگوں کی امت ہے تو خیر، اور اگر ان کی اس سے مراد علماء وماہرین حدیث ہے، تو ان کے متعلق تو ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہو۔ اور پھر یہ کس نے کہا ہے کہامت کے کسی حدیث کو قبول کر لینے سےاس کی سند دیکہنے کی حاجت نہیں رہتی ؟ اور یہ روایت تو قرآنی نصوص اور احادیث نبوی کے صریح خلاف ہے۔ اور پھر تمام واقعات و شواہد اس غیر اسلامی وغیر عقلی نظریئے کی تردید کرتے ہیں۔ اس لیے کہ نبی
[1] رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعہ رسائل ص 33 [2] (ایضاً ص33 [3] رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعہ رسائل